ایک شخص مسجد کی خدمت کا فریضہ سرانجام دے رہاہے، تقریباً ڈیڑھ سال سے مسجد کے صدر نے تنخواہ دینی بند کی ہےکہ آپ مسجد کے ممبر ہیں ،آپ کے لیے مسجد کی خدمت کی تنخواہ لینی جائز نہیں ہے۔ شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کہ موصوف کے لیے مسجد کی صفائی کی مد میں تنخواہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟نیز مسجد کا امام یا مؤذن کمیٹی کا رکن ہو تو ان کے لیے امامت یا مؤذنی کی تنخواہ لینا شرعاً جائز ہے؟
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کومسجد کمیٹی تنخواہ پر صفائی کرنے کے لیے مقرر کرتی ہے تو اس کے لیے مسجد کمیٹی کا ممبر ہونے کے باوجودمسجد کی صفائی وغیرہ کے بدلے تنخواہ لینا جائز ہے، لیکن اگر اسے مسجد کمیٹی نے تنخواہ پر صفائی کے لیے مقرر نہیں کیا تو مسجد کی صفائی کے بدلے تنخواہ کا مطالبہ جائز نہیں، اسی طرح اگر کوئی امام یا مؤذن مسجد کمیٹی کا رکن ہو اور مسجد کمیٹی اسے تنخواہ پر امام یا مؤذن مقرر کرے تو اس کے لیے بھی امامت یا مؤذنی کی تنخواہ لینا جائز ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"سئل الفقيه أبو القاسم عن قيم مسجد جعله القاضي قيمًا على غلاتها و جعل له شيئًا معلومًا يأخذه كل سنة حل له الأخذ إن كان مقدار أجر مثله، كذا في المحيط."
(كتاب الوقف، الباب الحادي عشر في المسجد و ما يتعلق به، الفصل الثاني في الوقف و تصرف القيم وغيره في مال الوقف عليه2/ 461، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100887
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن