بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام اور مقتدی نماز کےلیے کب کھڑے ہوں؟ اورفرض نمازوں کے بعد زور سے کلمہ طیبہ پڑھنے کا حکم، زندگی میں دین کی رغبت پیدا کرنے والا عمل


سوال

(1) ہمارے قریب مسجدمیں مقتدی اور امام اس وقت تک بیٹھے رہتے ہیں جب تک تکبیر کہنے والا شخص(أشهدأن محمد رسول الله) نہ کہے۔

(2) اور نماز پڑھنے کے بعد بلند آواز سے (لاإله إلا الله) پڑھتے ہیں، اس پہ روشنی ڈالیں کہ سائل اس صورت حال میں کیا کریں؟ 

(3) زندگی میں دین کی طرف رغبت پیداکرنے کے  لیے کوئی نسخہ کیمیا بھی  بتادیجیے!

جواب

(1)بہتریہ ہےکہ جیسےہی امام امامت کےلیےمصلےکی طرف آنےلگیں نمازی حضرات کھڑےہوکراپنی اپنی صفیں درست کریں،اگلی صفوں  میں جگہ ہوتووہ جگہ پرکریں،کیوں کہ صفیں سیدھی کرناسنت مؤکدہ ہے،اوراس کے بارے میں احادیث میں بڑی تاکید آئی ہیں۔ اگر  حی علی الصلاۃ کےوقت مقتدی کھڑے ہونےلگیں اورتکبیرختم ہوتےہی امام نماز شروع کریں،تو اسی کم دورانیہ میں صفیں درست کرنےمیں دقت ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ حدیث شریف میں آتاہے:

"وعن أبي قتادة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:إذا أقيمت الصلاة ‌فلا ‌تقوموا ‌حتى ‌تروني قد خرجت."

(مشكاة المصابيح، كتاب الأذان، ‌‌باب تأخير الأذان،الفصل الأول،  ج:1، ص:216، ط: المكتب الإسلامي)."

"ترجمہ:حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ روای ہیں،کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:جب نماز کےلیےتکبیرکہی جائےتوجب تک تم مجھے حجرہ سےنکلتاہوانہ دیکھ لونماز کےلیے کھڑےنہ ہو۔"(مظاہرحق)

لیکن  اس طرح کسی حدیث سےثابت نہیں کہ مؤذن کےتکبیر شروع کرتےوقت امام آکرمصلے پربیٹھ جائےاورحی علی الصلاۃ کےوقت امام اورمقتدی سب کھڑےہوں،اس لیےاس طریقہ کو مستحب قراردینا غلط ہے۔

(2) فرض نماز کے بعد بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کا خصوصیت کے ساتھ التزام کرنا شرعا ثابت نہیں لہذا نفس ذکر جائز ہے اور التزام منع ہے،   لیکن اس طرح زور سے پڑھنا جس سے نمازیوں کو نماز میں تشویش ہوتی ہو جائز نہیں ہے،بلکہ اگر بلا التزام آہستہ پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، اجتماعی صورت میں یا بلند آواز کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے۔

(3)سائل علماء اورصلحاء کی مجلس میں بیٹھنےکی عادت اپنائے،اور  مستندذرائع سےانبیاءعلیہم الصلاۃ والسلام ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اوردیگرنیک حضرات کے دین کی طرف رغبت پیداکرنےوالے واقعات پڑھا کرےاوراس پرعمل کرنے کی کوشش کریں ،اورگناہ کےکاموں سےاپنےآپ کوبچائے،ان شاءاللہ دل میں دین  کی طرف رغبت پیداہوجائے  گی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كان المؤذن غير الإمام وكان القوم مع الإمام في المسجد فإنه يقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن: حي على الفلاح عند علمائنا الثلاثة وهو الصحيح فأما إذا كان الإمام خارج المسجد فإن دخل المسجد من قبل الصفوف  فكلما جاوز صفا قام ذلك الصف وإليه مال شمس الأئمة الحلواني والسرخسي وشيخ الإسلام خواهر زاده وإن كان الإمام دخل المسجد من قدامهم يقومون كما رأى الإمام."

(کتاب الصلوۃ ، الباب الثانی فی الأذان، الفصل الثانی فی الفاظ الأذان و الإقامة و کیفیتهما، ج:1، ص:57، ط: مکتبة رشیدیة)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله والقيام حين قيل حي على الفلاح) ؛ لأنه أمر به فيستحب المسارعة إليه."

(کتاب الصلوۃ، باب سنن الصلوۃ، ج:1، ص:321، ط: دار الکتاب الإسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"إن هناك أحاديث اقتضت طلب الجهر، وأحاديث طلب الإسرار والجمع بينهما بأن ذلك يختلف باختلاف الأشخاص والأحوال، فالإسرار أفضل حيث خيف الرياء أو تأذي المصلين أو النيام والجهر أفضل حيث خلا مما ذكر."

( ‌‌كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في البيع، ج:6، ص:398، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: أجمع العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ."

(کتاب الصلوۃ، باب مایفسد الصلوۃ و مایکرہ فیها، ج:1، ص:660 ط: دارالفکر)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

سوال(2433):فرضوں کےبعد اکثرلوگ "لاالہ الا اللہ"زورسےپڑھتےہیں تین بار،اس کاپڑھناکیساجائزہےیانہیں؟اکثرلوگ منع کرتےہیں۔فقط۔

الجواب حامداًومصلیاً:

ذکراللہ خاص کرذکر"لاالہ الا اللہ"کی حدیث شریف میں بہت فضلیت آئی ہے،ذکربلاشبہ آہستہ اورزورسےہرطرح پڑھناجائزاورموجب ثواب ہے،مگرفرضوں کےبعد خصوصیات سےالتزام کرنایعنی اس کوواجب اورضروری سمجھنااورنہ کرنےوالےپرملامت کرناشرعاًثابت نہیں لہٰذانفسِ ذکرجائزاورالتزام منع ہے،بسااوقات مسجد میں بعض لوگ مسبوق ہوتےہیں،یااپنی تنہانماز میں مشغول ہوتےہیں اورزورسےذکرکرنےسےان کوتشویش لاحق ہوتی ہے،اس لیےافضل اوربہتریہ ہےکہ آہستہ ذکرکیاجائےتاکہ ثواب کاثواب حاصل ہواورکسی کوتشویش واذیت بھی نہ ہو۔

(زیرعنوان:ہرفرض نمازکےبعدکلمہ طیبہ جہراًپڑھنا، کتاب الصلاۃ، باب الذکروالدعاءبعد الصلوات، ج:5، ص:660، ط: ادارۃ الفاروق کراچی پاکستان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101886

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں