بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام سے پہلے سلام پھیرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی شخص نماز میں امام صاحب سے پہلے سلام پھیر دیں تو اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے نماز ہوجائے گی یا نہیں ؟

جواب

اگر کسی مقتدی نے امام سے پہلے سلام پھیر دیا، اس کے بعد امام نے سلام پھیرا  تو مقتدی کی نماز  ہوجائے گی ، البتہ مقتدی کے لیے ایسا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، تاہم نماز کا اعادہ واجب نہیں ہے،احتیاطاًکرلے تو بہتر ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ولو أتمه قبل إمامه فتكلم جاز وكره.

(قوله: لو أتمه إلخ) أي لو أتم المؤتم التشهد، بأن أسرع فيه وفرغ منه قبل إتمام إمامه فأتى بما يخرجه من الصلاة كسلام أو كلام أو قيام جاز: أي صحت صلاته؛ لحصوله بعد تمام الأركان؛ لأن الإمام وإن لم يكن أتم التشهد لكنه قعد قدره؛ لأن المفروض من القعدة قدر أسرع ما يكون من قراءة التشهد وقد حصل، وإنما كره للمؤتم ذلك؛ لتركه متابعة الإمام بلا عذر، فلو به كخوف حدث أو خروج وقت جمعة أو مرور مار بين يديه فلا كراهة، كما سيأتي قبيل باب الاستخلاف (قوله: فلو عرض مناف) أي بغير صنعه كالمسائل الاثني عشرية وإلا بأن قهقه أو أحدث عمداً فلا تفسد صلاة الإمام أيضاً كما مر".

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ  الصلاۃ،ج:1،ص:525،سعید)

فتاوی رحیمیہ میں ہے :

"بلا عذر شرعی مقتدی امام سے پہلے سلام پھیر دے  تو اگرچہ نماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی ،اسے چاہیے کہ امام  کے ساتھ نماز پوری کرے اور امام کے ساتھ دوبارہ سلام پھیر دے۔ "

(مفسدات الصلاۃ،ج:5،ص:123،دارالاشاعت)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :

"(سوال 1239) تذکرۃ الرشید میں ہے  کہ اگر مقتدی امام سے پہلے سلام پھیر کر فارغ ہوگیا تو مقتدی کی نماز فاسد ہوجائے گی ،اور شامی ،عالمگیری،البحر الرائق  وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز مقتدی کی اس صورت میں ہوجائے گی لیکن مع الکراہت ،اس مسئلہ کو مصرح تحریر فرمایا جاوے ؟

(الجواب ) یہ مسئلہ جو تذکرہ الرشید سے نقل فرمایا ہے یہ فرع ہے وجوب متابعت امام کی ،کیوں کہ متابعت کے معنیٰ یہ ہے  کہ امام کے ساتھ ساتھ ارکان وواجبات کو ادا کرے یا اس کے بعد ادا کرے پہلے نہ کرے یعنی تقدیم ممنوع ہے جیسا کہ شامی میں تحقیق متابعت میں نقل فرمایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اور چوں کہ اس میں دو قول ہیں کہ مقتدی امام سے کس وقت خارج ہوتا ہے ،در مختار میں مشہور مذہب یہ لکھا ہے کہ امام نے جس وقت لفظ السلام کہا تو اقتداء ختم ہوجاتی ہے پس اس قول کے موافق تو لفظ السلام میں تقدیم نہ کرنی چاہیے ورنہ نماز فاسد ہوجاوے گی ،اور دوسرا قول یہ ہے کہ سلام ثانی سے اقتداء ختم ہوتی ہے تو اس قول کے موافق پورا السلام علیکم ورحمۃ اللہ امام کے ساتھ یا پیچھے ہونا چاہیے ،اگر پہلے ختم کردے تو نماز مقتدی کی موافق اس قول کے فاسد ہوگی ،پس تذکرۃ الرشید  میں احتیاطا اس قول کو اختیار فرمایا ہوگا ۔۔۔۔الخ ۔"

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ والجماعۃ ،ج:3،ص:247،دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں