بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام صاحب کی عدمِ موجودگی میں امامت کا حق


سوال

ایک امام صاحب جو کہ عرصہ اٹھائیس سال سے امامت کے فرائض سر انجام دے رہا ہے، کچھ عرصہ سے گلے کی خرابی کے باعث اپنے بیٹے کو جو کہ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ درجہ سادسہ کا طالبِ علم بھی ہے،اور عمر بھی 22 سال ہے، نماز پڑھانے کے لیے مصلیٰ پر کھڑا کرتا ہے، جب کہ مسجد کا مؤذن حافظ بھی ہے اور عالم بھی ہے، مفتی بھی ہے، ایسی صورت میں امام صاحب کے بیٹے کا نماز پڑھانا شرعاً اصولاً کیسا ہے؟

بعض نمازیوں کا اعتراض ہے کہ ایسے مؤذن کے ہوتے ہوئے امام کے بیٹے کا نماز پڑھانا صحیح نہیں ہے، لہذا دینِ متین کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

اگر کسی محلے یا علاقے کی مسجد کا مقرر امام ہو تو جماعت کی نماز کا سب سے زیادہ حق دار وہی امام ہے، اگر امام موجود نہ ہو تو انتظامیہ کی طرف سے جس کو نائب مقرر کیا جائے وہ امامت کا حق دار ہو گا، پھر نائب مقرر کیے جانے میں موجود افراد میں سے سب سے زیادہ حق دار وہ شخص ہے جو نماز کے مسائل سے سب سے زیادہ واقف ہو  اور اُسے اتنا قرآنِ پاک یاد ہوکہ نماز میں مسنون قراءت کی مقدار تجوید کے مطابق کرسکے، بشرط یہ کہ کھلے  عام کبیرہ گناہوں کا مرتکب نہ ہو۔ اگر علم میں سب برابر ہوں تو اچھی تلاوت کرنے والا مستحق ہوگا،اور اگر تلاوت میں بھی سب یک ساں ہو تو ان میں سے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہوگا وہ امامت کا زیادہ مستحق ہے۔

سوال میں مذکورہ مسجد میں امامت سے متعلق جو تفصیل ذکر کی گئی ہے، اس مسئلہ کے حل کے لیے مسجد کمیٹی کو چاہیے کہ وہ امام صاحب کی غیر حاضری یا بیماری کے ایام کے لیے ایک ضابطہ طے کر دیں، (مثلاً یہ طے کر دیں کہ امام صاحب کی بیماری میں مؤذن صاحب فرائضِ امامت سنبھالیں گے یا امام صاحب جس کو مناسب سمجھیں وہ سنبھالے) پھر اُسی ضابطے کے مطابق عمل کیا جائے، اور ضابطہ بنانے کے لیے بھی درج بالا اُصول پیشِ نظر رہے کہ مذکورہ دونوں افراد میں سے جو نماز کے مسائل سے زیادہ واقف ہو وہ زیادہ حق دار ہو گا۔

اور اگر کمیٹی نے عذر کے ایام میں اختیار اِمام صاحب کو دیا ہوا ہو تو ایسی صورت میں امام صاحب ہی کی رائے اس معاملہ میں حتمی ہو گی، اگر امام صاحب اپنے بیٹے کو امامت کے لیے کھڑا کریں تو ایسا کرنا درست ہو گا، بشرطیکہ امام صاحب کے بیٹے کی امامت میں  شرعاً کوئی خرابی (ڈاڑھی کاٹنا یا قرآن غلط پڑھنا) نہ ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا الحسن بن علي الخلال قال: حدثنا أبو عامر العقدي قال: حدثنا كثير بن عبد الله بن عمرو بن عوف المزني، عن أبيه، عن جده، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين، إلا صلحا حرم حلالا، أو أحل حراما، ‌والمسلمون ‌على ‌شروطهم، إلا شرطا حرم حلالا، أو أحل حراما»: هذا حديث حسن صحيح."

(سنن ترمذی، ابواب الاحکام، ‌‌باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح بين الناس، جلد:3، صفحہ:626، طبع:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

البحر الرائق میں ہے:

"والباني أحق بالإمامة والآذان وولده من بعده وعشيرته أولى بذلك من غيرهم وفي المجرد عن أبي حنيفة - رضي الله عنه - أن الباني أولى ‌بجميع ‌مصالح المسجد ونصب الإمام والمؤذن إذا تأهل للإمامة. اهـ"

(کتاب الوقف، جلد:5، صفحہ:270، طبع: دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و الأحقّ بالإمامة) تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنھر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحةً و فسادًا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، و قیل واجب، و قیل: سنة (ثم الأحسن تلاوۃ) و تجویدًا (للقراءۃ، ثم الأروع) أي: الأکثر اتقاء للشبھات."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، جلد:1، صفحہ:557، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں