بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امام صاحب کا نمازِ جنازہ میں تین تکبیریں کہنے کے بعد سلام پھیرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے جنازے کی امامت کی اور تین تکبیرات کے بعدسلام پھیر دیا لوگوں اسے یاد دلایا، اس نے چوتھی تکبیر پھر بھی نہیں کہی، بلکہ یہ کہہ دیا کہ جنازہ ہوگیا ہے، کیا اس صورت میں جنازہ ہوگیا یا پھر دوبارہ جنازہ پڑھا جائے گا؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں !

جواب

نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کہنا فرض ہے، اور یہ چار تکبیریں چار رکعات کے قائم مقام ہیں، لہٰذا اگر نمازِ جنازہ میں امام صاحب نے چار کے بجائے تین تکبیریں کہہ کر سلام پھیر دیا تو نمازِ جنازہ نہیں ہوئی، اس نمازِ جنازہ کا اعادہ لازم تھا، اگر دفن کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ نماز جنازہ نہیں ہوئی اور اعادہ لازم تھا تو  قبر پر اس وقت تک جنازہ کی نماز پڑھنا لازم ہے جب تک میت کے سڑنے اور پھٹنے کا غالب گمان نہ ہو، اور میت کے گلنے سڑنے کی مدت حتمی طور پر متعین نہیں ہے، موسم کے گرم و سرد ہونے، میت کی جسامت  اور زمین  کی ساخت کے اعتبار سے مختلف علاقوں میں اس کی مدت مختلف ہوسکتی ہے، بعض فقہاء نے  معتدل علاقوں میں اس کی تحدید تین دن  سے کی ہے، یعنی تین دن بعد میت گلنا اور سڑنا شروع ہوتی ہے، لہٰذا دفن کے وقت سے تین دن بعد تک بھی اگر قبر پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جاسکی تو  پھر اس کے بعد نہیں پڑھنی چاہیے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 209):

"(وركنها) شيئان (التكبيرات) الأربع، فالأولى ركن أيضاً لا شرط، فلذا لم يجز بناء أخرى عليها (والقيام) فلم تجز قاعدا بلا عذر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224):

"(وإن دفن) وأهيل عليه التراب (بغير صلاة) أو بها بلا غسل أو ممن لا ولاية له (صلي على قبره) استحساناً (ما لم يغلب على الظن تفسخه) من غير تقدير، هو الأصح. وظاهره أنه لو شك في تفسخه صلي عليه، لكن في النهر عن محمد لا كأنه تقديماً للمانع.

 (قوله: صلي على قبره) أي افتراضاً في الأوليين وجوازاً في الثالثة؛ لأنها لحق الولي أفاده ح. أقول: وليس هذا من استعمال المشترك في معنييه كما وهم؛ لأن حقيقة الصلاة في المسائل الثلاث واحدة، وإنما الاختلاف في الوصف وهو الحكم، فهو كإطلاق الإنسان على ما يشمل الأبيض والأسود فافهم (قوله: هو الأصح) لأنه يختلف باختلاف الأوقات حراً وبرداً والميت سمناً وهزالاً والأمكنة، بحر، وقيل: يقدر بثلاثة أيام، وقيل: عشرة، وقيل: شهر ط عن الحموي". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200575

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں