ایک امام صاحب ہر مہینہ پانچ ہزار روپے ،تنخواہ ملنے کے باوجود، جمعہ کے دن چندہ جمع کرتے وقت کچھ پیسے ویسے ہی متولی سے چھپ کر اٹھالیتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً امام صاحب مسجد کے چندے کے پیسوں میں سے چھپ کر پیسے اٹھاتے ہیں تو ان کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے، امام صاحب پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ کریں اور اب تک جتنے پیسے مسجد کے چندے میں سے اٹھائے ہیں وہ واپس مسجد کے پیسوں میں ڈالنا ضروری ہے، اگر امام صاحب کا مقررہ تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا ہے تو انہیں چوری چھپے مسجد کے چندے کے پیسوں سے چوری کرنے کے بجائے مسجد کی کمیٹی/متولی سے اپنی تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اور مسجد انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ امام صاحب کو اتنی معقول تنخواہ دیں جو معتدل انداز میں ایک متوسط گھرانے کے اخراجات کے لیے کفایت کرے۔
تاہم اگر واقعتًا امام ایسا نہ ہو ، بلکہ محض شک وشبہ یا سنی سنائی باتوں سے امام پر یہ الزام ہو تو کسی پر بے بنیاد الزام لگانا، بہتان تراشی بہت ہی برا گناہ ہے، خصوصاً امام کے بارے میں پروپیگنڈے کرنا انتہائی نامناسب طرز ہے، مسلمان کے بارے میں حسنِ ظن رکھنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144301200004
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن