بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام صاحب کا سنتوں کا وقت نہ دینا


سوال

 ہماری  مسجد کے امام صاحب کا معمول  ہے  کہ جمعہ کی نماز میں جو  سنتیں چار  ہیں، ان کو مؤخر کردیتے ہیں اور فرماتے ہیں ان کی قضا بعد میں کر لی جائے،  نمازیوں کا کہنا تھا کہ آپ سنتوں کا وقت کم دیتے ہیں، دو رکعت ادا کرتے ہیں کہ اذان شروع ہوجاتی  ہے، وقت زیادہ دیا کریں،  کئی بار توجہ دلائی،  مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا سنتوں کی قضا  ہوتی  ہے؟ اور اگر بعد میں قضا کر بھی لی جائے تو کیا ان کی وہی حیثیت ہوگی جو اس کے اپنے وقت میں تھی؟ اور کیا مذہبی رہنما کا اس طرح کا رویہ اختیار کرنا کہ کوئی مسئلہ نہیں سنتوں کو بعد میں ادا کر لیا جائے کیا اس میں عملاً استخفاف کا پہلو نہیں  ہے؟ اور جب نمازی حضرات نے یہ کہا کہ اپنا بیان مختصر کریں تو اس کا بھی کوئی معقول جواب نہیں دیا گیا اور پھر یہ کہا کہ اگر بیان لمبا ہو ہی گیا  ہے تو پانچ منٹ تاخیر سے جمعہ کی نماز کھڑی کر دیں تو  فرمانے لگے کہ قرآن مجید میں ارشادِ  ربانی ہے سورۂ  نساء آیت نمبر 103کہ "بےشک نماز مسلمانوں کے ذمہ ایسا فریضہ  ہے جو وقت کا پابند  ہے۔" اس  لیے نمازِ  جمعہ وقت پہ ہی کھڑی ہوگی۔  تو کیا اس  سے مراد وہ مقررہ اوقات  ہیں جو مساجد میں اوقاتِ نماز ہیں یا اس کا کوئی اور مطلب  ہے؟  قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیے گا!

جواب

بصورتِ صدقِ واقعہ  مذکورہ امام صاحب کا سنتوں کے  لیے مکمل وقت  (جس میں معتدل انداز میں چار رکعات ادا کی جاسکیں)  نہ دینا درست نہیں ہے،  امام صاحب کو چاہیے کہ وہ سنتوں کے  لیے کم از کم پانچ منٹ ضرور  دیں،  اور اس کی حجت کے لیے قرآنِ  پاک کی مذکورہ آیت پیش کرنا   اور یہ کہنا کہ نماز  کا جو وقت مسجد میں لکھا ہوا ہے،  قرآنِ  پاک میں مقررہ اوقات سے یہ مراد ہے،  یہ بھی درست نہیں ہے ۔ قرآنِ مجید میں نمازوں کے مقررہ اوقات سے مراد پنج وقتہ نمازوں کے اوقات ہیں، جن میں نمازوں کی ادائیگی فرض کی گئی ہے، اور کسی بھی نماز کا وقت گزرنے کے بعد اگر وہ پڑھی جائے تو وہ قضا کہلاتی ہے۔ اگر مسجد میں لکھے ہوئے وقت پر ہی نماز پڑھنی ہے تو بیان کو مختصر کرنا چاہیے اور کم از کم پانچ منٹ ضرور سنتوں کے لیے دینے چاہییں یا پھر نمازیوں سے پہلے ہی کہہ دیا جائے کہ  بیان  سے  پہلے  نماز  پڑھ  لیں۔ باقی اگر کبھی کسی مقتدی کی پہلے کی چار سنت رہ جائیں تو وہ فرض کے بعد کی چار سنتوں کے بعد ان سنتوں کو پڑھ لے، لیکن اس کی عادت بنانا درست نہیں ہے۔

البتہ اس معاملے پر امام صاحب سے جھگڑنا اور ان سے حجت بازی کرنا درست نہیں ہے، بہتر ہوگا کہ کسی ایسے عالم یا بزرگ سے درخواست کریں جن کی بات مذکورہ امام صاحب قبول کرلیں، یا مسجد انتظامیہ سے کہہ کر حکمت کے ساتھ اس معاملے کو حل کرلیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201222

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں