بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام اور مقتدیوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں نماز کا حکم


سوال

میرا اکثر مشاہدہ ہوا ہے کہ لوگ امام صاحب کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اکثر اوقات لوگ امام صاحب کو اخلاقاً یا عادتاً یا شرعاً یا تعلقاً برا سمجھتے ہوۓ اس کی پیٹھ پیچھے غیبت کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ:

 کیا ایسے  لوگوں کی اس امام کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے ؟

اگر لوگوں  کا اختلاف صحیح ہو   تو  کیا اس امام کی امامت جائز ہے؟

اگر امام اپنے مقتدی کے بارے میں اپنے دل میں کوئی خلل رکھ کر اس مقتدی کی امامت کراۓ تو امامت اور نمازیوں کی نماز میں کوئی مسئلہ تو نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر مقتدیوں  اور امام کے درمیان اختلاف کی وجہ شرعی ہو تو ایسی صورت میں اگر قصور مقتدیوں  کا ہو تو وہ ملامت کے مستحق ہوں گے، اور  انہیں اپنے طرز عمل  کو تبدیل کرکے اپنے امام سے معافی مانگنی چاہیئے،  اور اگر قصور وار امام ہو تو ا س سے اس کی غلطی کی نشاندہی کرکے اصلاح کی کوشش کرنی چاہیئے، تاہم اگر اختلاف کا سبب محض دنیاوی حسد ہو تو اس پر مقتدیوں کو توبہ و استغفار کرنا چاہیئے، بہر صورت  ایسے امام کے پیچھے نماز ادا ہوجائے گی، امام کی ناراضی  کی وجہ سے  مقتدی کی نماز، فاسد یا مکروہ نہ ہوگی، کیوں کہ نماز کے صحیح ہونے کے لیے کسی مخصوص مقتدی کی نیت کرنا یا نہ کرنا شرعًا معتبر نہیں، البتہ اگر امام کسی بدعت یا اعلانیہ گناہ میں مبتلا ہو تو ایسی صورت میں اس کی امامت مکروہ ہوگی۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَالْإِمَامُ يَنْوِي صَلَاتَهُ فَقَطْ) وَ (لَا) يُشْتَرَطُ لِصِحَّةِ الِاقْتِدَاءِ نِيَّةُ (إمَامَةِ الْمُقْتَدِي) بَلْ لِنَيْلِ الثَّوَابِ عِنْدَ اقْتِدَاءِ أَحَدٍ بِهِ قَبْلَهُ، كَمَا بَحَثَهُ فِي الْأَشْبَاهِ".

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَالْإِمَامُ يَنْوِي صَلَاتَهُ فَقَطْ إلَخْ) لِأَنَّهُ مُنْفَرِدٌ فِي حَقِّ نَفْسِهِ بَحْرٌ: أَيْ فَيُشْتَرَطُ فِي حَقِّهِ مَا يُشْتَرَطُ فِي حَقِّ الْمُنْفَرِدِ مِنْ نِيَّةِ صَلَاتِهِ عَلَى الْوَجْهِ الْمَارِّ بِلَا شَيْءٍ زَائِدٍ بِخِلَافِ الْمُقْتَدِي، فَالْمَقْصُودُ دَفْعُ مَا قَدْ يُتَوَهَّمُ مِنْ أَنَّهُ كَالْمُقْتَدِي يُشْتَرَطُ لَهُ نِيَّةُ الْإِمَامَةِ كَمَا يُشْتَرَطُ لِلْمُقْتَدِي نِيَّةُ الِاقْتِدَاءِ لِاشْتِرَاكِهِمَا فِي الصَّلَاةِ الْوَاحِدَةِ. وَالْفَرْقُ أَنَّ الْمُقْتَدِيَ يَلْزَمُهُ الْفَسَادُ مِنْ جِهَةِ إمَامِهِ فَلَا بُدَّ مِنْ الْتِزَامِهِ كَمَا يُشْتَرَطُ لِلْإِمَامِ نِيَّةُ إمَامَةِ النِّسَاءِ لِذَلِكَ كَمَا يَأْتِي. وَالْحَاصِلُ مَا قَالَهُ فِي الْأَشْبَاهِ مِنْ أَنَّهُ لَا يَصِحُّ الِاقْتِدَاءُ إلَّا بِنِيَّتِهِ، وَتَصِحُّ الْإِمَامَةُ بِدُونِ نِيَّتِهَا خِلَافًا لِلْكَرْخِيِّ وَأَبِي حَفْصٍ الْكَبِيرِ اهـ لَكِنْ يُسْتَثْنَى مَنْ كَانَتْ إمَامَتُهُ بِطَرِيقِ الِاسْتِخْلَافِ فَإِنَّهُ لَا يَصِيرُ إمَامًا مَا لَمْ يَنْوِ الْإِمَامَةَ بِالِاتِّفَاقِ كَمَا نَصَّ عَلَيْهِ فِي الْمِعْرَاجِ فِي بَابِ الِاسْتِخْلَافِ وَسَيَأْتِي هُنَاكَ (قَوْلُهُ: بَلْ لِنَيْلِ الثَّوَابِ) مَعْطُوفٌ عَلَى قَوْلِهِ لِصِحَّةِ الِاقْتِدَاءِ أَيْ بَلْ يُشْتَرَطُ نِيَّةُ إمَامَةِ الْمُقْتَدِي لِنَيْلِ الْإِمَامِ ثَوَابَ الْجَمَاعَةِ، وَقَوْلُهُ عِنْدَ اقْتِدَاءِ أَحَدٍ بِهِ مُتَعَلِّقٌ بِنِيَّتِهِ الَّتِي هِيَ نَائِبُ فَاعِلِ يُشْتَرَطُ الْمُقَدَّرُ بَعْدُ، بَلْ وَقَوْلُهُ لَا قَبْلَهُ مَعْطُوفٌ عَلَيْهِ: أَيْ لَا يُشْتَرَطُ لِنَيْلِهِ الثَّوَابَ نِيَّةُ الْإِمَامَةِ قَبْلَ الِاقْتِدَاءِ، بَلْ يَحْصُلُ بِالنِّيَّةِ عِنْدَهُ أَوْ قَبْلَهُ، فَقَوْلُهُ لَا قَبْلَهُ نَفْيٌ لِاشْتِرَاطِ نَيْلِ الثَّوَابِ بِوُجُودِ النِّيَّةِ قَبْلَهُ لَا نَفْيٌ لِلْجَوَازِ وَلَا يَخْفَى أَنَّ نَفْيَ الِاشْتِرَاطِ لَا يُنَافِي الْجَوَازَ، فَافْهَمْ". ( كتاب الصلاة، بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ، ١ / ٤٢٤، ط: دار الفكر)

مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:

امام سے اختلاف کی صورت میں اس کے پیچھے نماز پڑھنا

مقتدی کسی وجہ سے امام سے ناراض ہوں تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں