بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امام نے تراویح کی چار رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھا دیں، نہ قعدہ اولی کیا اور نہ سجدہ سہو


سوال

ایک بندہ نے تراویح میں دو رکعت کے بجائے چار رکعت پڑھالیں اور آخر میں سجدہ سہو بھی نہیں کیا اور نہ  پہلا قعدہ کیا تھا، اب اس بندہ نے اس وقت کے اندر قضا بھی نہیں کی، آیا دوسرے دن قضا  کرسکتے ہیں یا نہیں؟  اگر کرسکتے ہیں تو کتنی رکعتوں کی قضا کریں گے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص نے تراویح میں  چار رکعت ایک سلام کے ساتھ ادا کرلی اور وہ قعدہ اولیٰ میں بیٹھا ہو تو اس کی تراویح درست ہو جائے گی، لیکن قصداً  ایسا کرنا مکروہ ہے۔

البتہ اگر دوسری رکعت کے بعد قعدہ کرنے کے بجائے بھول کر سجدے سے سیدھا کھڑاہوگیا تو  جب تک تیسری رکعت کا سجدہ نہ کیاہو بیٹھ جائے  اورآخر میں سجدہ سہو کرکے نماز پوری کرلے اور اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو  نماز لوٹانی ہوگی۔

اور اگر دوسری رکعت کاقعدہ نہیں کیا اور کھڑے  ہو کر تیسری رکعت بھی پڑھ  لی اور تیسری رکعت کا سجدہ بھی کرلیا تو چوتھی رکعت ملاکر سجدہ سہو کرکے سلام پھیرے ، اس صورت میں آخری دورکعت درست ہوں  گی اور پہلی دورکعت قعدہ نہ کرنے کی وجہ سے فاسد ہوں گی، اور پہلی دورکعت میں جو قرآن پڑھاگیااس کا دوبارہ پڑھناضروری ہوگا۔

پس صورتِ  مسئولہ میں  امام صاحب نے  چوں کہ پہلی دو رکعات کے بعد قعدہ  نہیں کیا تھا اس وجہ سے وہ دو رکعات فاسد ہوگئیں، اور سجدہ سہو نہ کرنے کی وجہ سے آخری دو رکعات کا اعادہ اس دن کی تراویح کے وقت میں ہی کرنا واجب تھا، وقت میں اعادہ نہ کرسکنے  کی وجہ سے آخری دو رکعات ناقص ادا ہوگئی ہیں، اب ان کا اعادہ واجب نہ ہوگا، اسی طرح سے پہلی دو رکعات  چوں کہ فاسد ہوگئی تھیں،  ان دو رکعات کا اعادہ اسی رات صبح صادق سے پہلے پہلے کرنا  چاہیے تھا، وقت گزرجانے کے بعد ان دو رکعات کی باجماعت قضا  مکروہ ہے، تاہم اگر کوئی انفرادی طور پر کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، ہاں آئندہ دن کی تراویح میں ان دو رکعتوں میں کی گئی تلاوت کی مقدار دہرائی جائے گی۔

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَإِذَا تَذَكَّرُوا أَنَّهُ فَسَدَ عَلَيْهِمْ شَفْعٌ مِنْ اللَّيْلَةِ الْمَاضِيَةِ فَأَرَادُوا الْقَضَاءَ بِنِيَّةِ التَّرَاوِيحِ يُكْرَهُ وَلَوْ تَذَكَّرُوا تَسْلِيمَةً بَعْدَ أَنْ صَلَّوْا الْوِتْرَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ: لَا يُصَلُّونَهَا بِجَمَاعَةٍ وَقَالَ الصَّدْرُ الشَّهِيدُ يَجُوزُ أَنْ يُصَلُّوهَا بِجَمَاعَةٍ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ."

( كتاب الصلاة، الْبَابُ التَّاسِعُ فِي النَّوَافِلِ، فَصْلٌ فِي التَّرَاوِيحِ،  ١ / ١١٧،  ط: دار الفكر)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"و إذا تذكروا في الليلة الثانية أنه فسد عليهم شفع في الليلة الأولي، فأرادوا أن يقضوا يكره، لأنهم لو قضوا بنية التراويح يزيد علي التراويح هذه الليلة، و إنه مكروه."

( كتاب الصلاة، الفصل الثالث عشر: في التراويح، نوع آخر في قضاء التراويح، ١ / ٤٢١، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"ومنها أن يصلي كل ركعتين بتسليمة على حدة. ولو صلى ترويحة بتسليمة واحدة وقعد في الثانية قدر التشهد، لا شك أنه يجوز على أصل أصحابنا أن صلوات كثيرة تتأدى بتحريمة واحدة بناء على أن التحريمة شرط وليست بركن عندنا خلافًا للشافعي، لكن اختلف المشايخ أنه هل يجوز عن تسليمتين أو لايجوز إلا عن تسليمة واحدة؟ قال بعضهم: لايجوز إلا عن تسليمة واحدة؛ لأنه خالف السنة المتوارثة بترك التسليمة، والتحريمة، والثناء، والتعوذ والتسمية فلايجوز إلا عن تسليمة واحدة، وقال عامتهم: إنه يجوز عن تسليمتين و هو الصحيح، وعلى هذا لو صلى التراويح كلها بتسليمة واحدة وقعد في كل ركعتين". ( ٣ / ١٥١)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں