بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام نے نماز پڑھانے کے بعد کپڑوں میں جنابت کے آثار دیکھے تو کیا حکم ہے؟


سوال

میں ایک ادارے میں ملازم ہوں،  ہمارے ادارے کی مسجد میں پانچ وقت نماز ہوتی ہے،  مولوی صاحب جب چھٹی جاتے ہیں تو  عام طور مجھے نماز پڑھانے کو کہا جاتا ہے اور میں یہ ذمہ داری ادا کرتا ہوں،  میں رات کو سونے سے قبل کپڑے بدل کر سوتا ہوں،  آج رات جب میں نے کپڑے بدلے تو مجھے اپنے کپڑے دیکھ کر پتہ چلا کہ یہ ناپاک ہیں جو یقینًا گزشتہ رات بدخوابی کے سبب ہوئے ہوں گے، اگرچہ میں نے کسی قسم کا کوئی خواب نہیں دیکھا۔  مسئلہ یہ ہے کہ آج صبح کی نماز میں نے بغیر غسل کے پڑھائی تھی،  اب جب کہ میں رات کو سونے کے  لیے لیٹا اور کپڑے بدلے ہیں تب مجھے اپنے کپڑوں کو دیکھ کر ساری کیفیت کا پتہ چلا ہے۔ میں سخت پریشان ہوں، میری راہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا  چاہیے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر  آپ نے  دن میں نمازیں پڑھانے کےبعد رات کو اپنے سونے والے   کپڑوں پر منی کے آثار دیکھے تو آخری مرتبہ  جب اس کپڑوں میں سوئے تھے اس وقت  سے   آپ کا حالتِ  جنابت میں ہونا سمجھا جائے گا، لہذا  جب فجر کی نماز آپ نے بغیر غسل کے پڑھادی   تو  آپ کی اور مقتدی دونوں کی نماز نہیں ہوئی،  اب اگلے دن اس وقت اعلان  کردیں  کہ فلاں دن فلاں نماز  میں جو حضرات  شریک تھے  وہ اپنی نماز کا اعادہ کرلیں، اور جن مقتدیوں کو اس کی اطلاع نہ ہوسکے وہ معذور ہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 219):

"[فرع] وجد في ثوبه منيًّا أو بولًا أو دمًا أعاد من آخر احتلام و بول و رعاف.

(قوله: أعاد من آخر احتلام إلخ) لف ونشر مرتب. وفي بعض النسخ من آخر نوم وهو المراد بالاحتلام؛ لأن النوم سببه كما نقله في البحر."

وفيه أيضًا (1/ 591):

’’(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها)؛ لتضمنها صلاة المؤتم صحةً وفساداً (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو ركن. وهل عليهم إعادتها إن عدلاً، نعم، وإلا ندبت، وقيل: لا لفسقه باعترافه ؛ ولو زعم أنه كافر لم يقبل منه؛ لأن الصلاة دليل الإسلام وأجبر عليه (بالقدر الممكن) بلسانه أو (بكتاب أو رسول على الأصح) لو معينين وإلا لايلزمه، بحر عن المعراج. وصحح في مجمع الفتاوى عدمه مطلقاً؛ لكونه عن خطأ معفو عنه، لكن الشروح مرجحة على الفتاوى.‘‘

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144201201044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں