کیا صدقہ فطر امام ِ مسجد کو دینا جائز ہے ؟
فدیہ اور فطرانہ (صدقہ فطر ) کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے، یعنی ایسا مسلمان جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔
لہٰذا اگر امام صاحب مستحقِ زکاۃ ہوں تو ان کو فطرہ کی رقم دی جاسکتی ہے بشرطیکہ صدقہ فطر کی رقم تنخواہ کی مد میں نہ دی جائے، اگر وہ مستحقِ زکاۃ نہیں ہیں تو ان کو صدقہ فطر دینا درست نہیں ہے، بلکہ نفلی صدقات اور عطیات سے امام مسجد کا تعاون کرنا چاہیے، یہ بہت ہی اجر وثواب کا باعث ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 368):
’’(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.
(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر ولا تصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه.‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206200921
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن