بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام مسجد کو صدقہ فطر دینے کا حکم


سوال

کیا صدقہ فطر امام ِ مسجد کو دینا جائز ہے ؟

جواب

فدیہ اور فطرانہ (صدقہ فطر ) کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے،  یعنی ایسا مسلمان جو سید اور ہاشمی نہ ہو  اور   اس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو  جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچے۔

لہٰذا اگر  امام صاحب مستحقِ  زکاۃ ہوں تو ان کو فطرہ کی رقم دی جاسکتی ہے بشرطیکہ صدقہ فطر کی رقم تنخواہ کی مد میں نہ دی جائے، اگر وہ مستحقِ  زکاۃ نہیں ہیں تو ان کو  صدقہ فطر دینا درست نہیں ہے، بلکہ نفلی صدقات اور عطیات سے امام مسجد کا تعاون کرنا چاہیے، یہ بہت ہی اجر وثواب کا باعث ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 368):

’’(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.

(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر ولا تصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200921

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں