بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام مالک کے نزدیک نکاح میں اعلان کا مطلب اور احناف کے نزدیک بغیر گواہوں کے صرف اللہ کو گواہ بنانے سے نکاح منعقد نہیں ہوتا


سوال

 لڑکے اور لڑکی نے بغیر گواہانِ نکاح کے ایجاب و قبول کیا، اللہ تعالی کو گواہ بنا کر، سوال یہ ہے کہ کیا انکا نکاح منعقد ہوگیا؟ کیونکہ امام مالک کے نزدیک نکاح میں گواہ شرط نہیں ہیں ،بلکہ اعلان شرط ہے یعنی اگر گواہان کے بغیر  اعلان کے ساتھ نکاح کیا جائے تو منعقد ہوجاتا ہے، نیز یہ بھی بتلا دیں کہ اگر اعلان بھی نہ پایا جائے تو امام مالک کے نزدیک محض ایجاب و قبول سے بھی نکاح ہوجائے گا ؟ نیز کس اعلان کا اعتبار کیا جائے گا یعنی اگر دو تین دوستوں کو بتادیا جائے تو اس پر اعلان کا اطلاق ہوگا یا بڑی جماعت تک پہنچانا اعلان شمار ہوگا؟ اگر بغیر گواہوں کے نکاح منعقد نہیں ہوا (جیسا کہ احناف کے نزدیک ہے) تو کیا یہ لڑکی علیحدگی کے الفاظ کے  بغیرکہیں اور نکاح کرسکتی ہے ،اس پر کوئی عدت ہوگی یا نہیں براہ کرم مفصل جواب عنایت فرمائے۔

جواب

 نکاح  منعقد ہونے کے لیے شرط یہ ہے  کہ دو  عاقل بالغ  مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو۔اگر  گواہوں  کی موجودگی کے بغیر  کسی نے ایجاب و قبول کر لیا تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوتا اور دونوں میاں بیوی نہیں بن جاتے،  بلکہ اجنبی ہی رہتے ہیں۔ حضرت امام مالک  رحمه الله اس سے اختلاف کرتے ہیں اور ان کا مؤقف ہے کہ نکاح میں گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں۔ لیکن نکاح کے حوالہ سے حضرت امام مالک رحمه الله  کے نزدیک جو شرط ضروری ہےوہ شرط دو گواہوں کی موجودگی سے زیادہ سخت ہے۔ حضرت امام مالک رحمہ الله فرماتے ہیں کہ نکاح کے انعقاد کے لیے گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں ہے مگر نکاح کی تشہیر اور اس کا اعلان شرط ہے، جس کے بغیر ان کے نزدیک نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ امام مالک رحمہ الله سےمنقول ہے کہ اگر ایک مرد اور ایک عورت نے گواہوں کی موجودگی میں آپس میں نکاح کر لیا مگر وہ اس نکاح کو لوگوں سے چھپا رہے ہیں تو ’’یہ نکاح جائز نہیں ہے ۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت امام مالک رحمہ الله خفیہ نکاح کو جائز قرار نہیں دے رہے ،بلکہ نکاح میں صرف گواہوں کی موجودگی کو ناکافی سمجھتے ہوئے اس کے عمومی اعلان اور تشہیر کو بھی ضروری قرار دے رہے ہیں۔

لہذا اگر صورت مسؤلہ میں معتبر گواہوں كی موجودگی كےبغيرنكاح ہواتویہ نكاح شرعاًمنعقدہی  نہيں ہوا،اس صورت ميں لڑكی کہیں اور نکاح کرسکتی ہے، علیحدگی کے الفاظ کی کوئی ضرورت نہیں،اورنہ ہی اس پر کوئی عدت ہے۔

علامہ کاسانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وقال مالك: ليست بشرط وإنما الشرط هو الإعلان حتى لو عقد النكاح وشرط الإعلان جاز وإن لم يحضره شهود، ولو حضرته شهود وشرط عليهم الكتمان لم يجز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(وجه) قول مالك أن النكاح إنما يمتاز عن السفاح بالإعلان فإن الزنا يكون سرا فيجب أن يكون النكاح علانية وقد روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه نهى عن نكاح السر والنهي عن السر يكون أمرا بالإعلان؛ لأن النهي عن الشيء أمر بضده، وروي عنه - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «أعلنوا النكاح ولو بالدف۔۔۔۔۔۔(ولنا) ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال «لا نكاح إلا بشهود» وروي «لا نكاح إلا بشاهدين» وعن عبد الله بن عباس - رضي الله عنهما - عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «الزانية التي تنكح نفسها بغير بينة."

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،کتاب النکاح،فصل صفات الشاھد، (2/ 252)ط:دارالکتب العلمیة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام۔۔۔۔۔ ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية."

( الفتاوى الهندية،كتاب النكاح، (1/ 267)ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100340

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں