بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام مہدی کے نزول کاوقت/کیا جمعہ دن دعاکی قبولیت کی گھڑی میں حرام کھانے والے کی دعا قبول ہوتی ہے؟


سوال

1: امام مہدی کے آنے کے بارےمیں بزرگان دین کیا فرماتے ہیں کہ کیا جلدی آنے کی امید ہے ،جب کہ بعض حضرات فرماتے ہیں  کہ  امام مہدی دو ہزار چو بیس میں   آئیں گے، کیا یہ درست ہے؟

2:  جمعہ کی دن ایک گھڑی آتی ہے، جس میں دعا  مانگنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے ، سوال یہ ہے کہ اگر دعا مانگنے والا گناہ گار ہو یا حرام کھانے والا ہو تب بھی اس کی دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں؟

جواب

1: واضح رہے کہ اہلِ سنت والجماعت کا نظریہ  یہ ہے کہ امام مہدی رضی اللہ عنہ کاقیامت سے پہلے ظہور ہوگا، احادیثِ مبارکہ میں  نبی علیہ السلام نے ان کے بارے میں امت کو خبر دی ہےاور ان کا نام ونسب ، ان کاحلیہ اور ان کے ظہور کے بعد کے حالات ذکر کیے ہیں ، تاہم ان کے ظہور کا کوئی متعین وقت نہیں بتایا، بلکہ ان کے ظہور کو علامات قیامت میں  سے ایک بڑی علامت قرار دیاہے، چناں چہ ایک حدیث شریف میں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ دنیا اس وقت تک اختتام پذیر نہیں ہوگی جب تک کہ عرب پر ایک شخص قبضہ نہ کرلے گا ، جو میرے خاندان میں سے ہوگا اور اس کانام میرے نام پر ہوگا‘‘

  اس کے علاؤہ متعدد احادیث  میں دس کے قریب قیامت کی علامات كا ذکر   ملتاهے ،جن کے وقوع کی ترتیب علماء نے یہ بیان فرمائی ہےکہ: سب سے پہلے  زمین پر تین بڑے زلزلے آئیں گے، ایک مغرب میں ،ایک مشرق میں اور ایک جزیرہ عرب میں ، ان زلزلوں کے بعد دنیامیں دجال کاظہور ہوگا، دجال کے بعدحضرت عیسیٰ علیہ السلام کانزول ہوگا، اس سے پہلے حضرت مہدی کاظہور ہوچکاہوگا اور پھر یاجوج ماجوج اور ان کے بعد پورے آسمان پر ایک دھواں ساچھاجائے گا، جس میں سب اہلِ ایمان انتقال کرجائیں گے ، اس کے بعد سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکلے گا، پھر دابۃ الارض(ایک عجیب وغریب قسم کاجانور) نکلے گا، اس کے بعد زمین سے ایک آگ نکلے گی  جو لوگوں کومحشر کی طرف دھکیلتی ہوئی لے جائے گی، بعض روایات میں پہلے سورج  اور دابۃ (ایک عجیب وغریب قسم کا جانور)نکلے گا،پھر اس کے بعد ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف دھکیلتی ہوئی لے جائے گی ،بعض اقوال کے مطابق پہلےسورج اور دابۃ الارض کا واقع ہوگا،پھر دھویں کا واقعہ پیش آئے گا۔ بہر حال امام مہدی کے ظہور کی تاریخ اور سن کی تعیین چوں کہ احادیث مبارکہ میں نہیں آئی، اس وجہ سے کسی تاریخ یا سنہ کو متعین نہیں کیا جاسکتا۔

2: شریعتِ مقدسہ نے مسلمانوں  کوحرام کھانے سے روکاہےاور حلال کھانے کاحکم دیاہے،ایک حدیث شریف میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کھانے  سے بچنے کاحکم دیا اور اس کے نقصانات میں سے ایک بڑے نقصان کاذکر کرتے ہوئےایک شخص کی مثال دی کہ جو (نیک کاموں کے لیے) طویل السفر، پراگندہ حال اور بکھرے ہوئے بال والا ہے، اپنے ہاتھ آسمان کی طرف کی اٹھائےیارب!یارب! کہتاہے، لیکن اس کا کھانا، پینااور لباس حرام کاہے،حرام سے اسے غذا دی گئی ہے، اس حالت میں اس کی دعاکیسے قبول ہوگی؟اور ایک روایت میں ہے کہ یہ  وہ شخص جو مانگتاہے ، اللہ اس کوضرور عطا فرماتاہے، بشرطیکہ  وہ حرام نہ ہو۔

اسی وجہ سے مفتی شفیع صاحب ؒ نے معارف القرآن میں لکھاہے:’’نيك عمل كرنے ميں  رزقِ حلال کو بڑا دخل ہے، اسی طرح قبولِ دُعا میں حلال  کھانامعین اور حرام مانعِ قبول ہے‘‘، لہذا اس حدیثِ مبارکہ کے عام ہونے کی وجہ سے جمعہ کی قبولیت کی گھڑی میں  بھی حرام کھانے والےکی دعا کے متعلق یہی کہاجائے گاکہ اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔

قرآنِ کریم میں ہے:

يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ وَاُشْكُرُوا لِلّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيّاهُ تَعْبُدُونَ(سورة البقرة، الآية:172)

"ترجمہ:اے ایمان والو !جو (شرع کی روسے) پاک چیزیں ہم نے تم کو مرحمت فرمائی ہیں ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ (برتو) اور حق تعالیٰ کی شکر گزاری کرواگر تم خاص ان کے ساتھ غلامی کا تعلق رکھتے ہو ۔ (بیان القرآن)"

تفسیر ابنِ کثیر میں ہے:

"والأكل من الحلال سبب لتقبل الدعاء والعبادة، كما أن الأكل من الحرام يمنع قبول الدعاء والعبادة. كما جاء في الحديث الذي رواه الإمام أحمد."

(سورة البقرة، الأية:172، ج:1، ص:350، ط: دار الكتب العلمية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيها الناس! إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا. وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين. فقال:{يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا إني بما تعملون عليم}.وقال:{يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم}  ". ثم ذكر الرجل يطيل السفر. أشعث أغبر. يمد يديه إلى السماء. يا رب! يا رب! ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام. ‌فأنى ‌يستجاب لذلك؟ ".

(كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب، ج:2، ص:703، ط: دار الكتب العلمية)

أبو داؤد میں ہے:

"عن حذيفة بن أسيد الغفاري، قال: كنا قعودا نتحدث في ظل غرفة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرنا الساعة، فارتفعت أصواتنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لن تكون - أو لن تقوم - الساعة حتى يكون قبلها عشر آيات: طلوع الشمس من مغربها، وخروج الدابة، وخروج ‌يأجوج ‌ومأجوج، والدجال، وعيسى ابن مريم، والدخان، وثلاثة خسوف، خسف بالمغرب، وخسف بالمشرق، وخسف بجزيرة العرب، وآخر ذلك تخرج نار من اليمن، من قعر عدن، تسوق الناس إلى المحشر ".

(كتاب الملاحم، باب أمارات الساعة، ج:4، ص:114، ط: المكتبة العصرية بيروت)

بذل المجہود میں ہے:

"وهذه الآيات لم تذكر مرتبة على ترتيب وقوعها، قيل: فأول الآيات الخسوفات، ثم خروج الدجال، ثم نزول عيسى، ثم خروج يأجوج ومأجوج، ثم الريح التي تقبض عندها ارواح أهل الإيمان، ثم طلوع الشمس من مغربها، ثم تخرج دابة الأرض. قلت: والأقرب في مثله التوقف، والتفويض إلى عالمه، "فتح الودود". قلت: وفيه أيضا كلام فإن المناسب أن يذكر الطلوع، وخروج الدابة قبل الريح".

(كتاب الملاحم، باب أمارات الساعة، ج:12، ص:363، ط: الدراسات الإسلامية الهند)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144510100820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں