بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چندہ کی رقم سے امام کے لیے موٹر سائیکل اور مشین خریدنا


سوال

ہمارے محلہ کی جامع مسجد کے پیش امام کے پاس مسجد کے آمدن و اخراجات آتے ہیں، کمیٹی کوئی نہیں ۔ وہ مسجد کے حجرے میں اپنے گھر سے دور قیام کرتے ہیں اور مسجد کی دیکھ بھال تعمیر و مرمت والے امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اگر وہ مسجد کی آمدن سے کپڑے دھونے کے لیے واشنگ مشین اور استری اور موٹر سائیکل خرید سکتے ہیں کہ نہیں ؟ جب کہ ان کا کہنا ہے کہ یہ سب خریدی ہوئی چیزیں مسجد ہی کا اثاثہ و ملکیت ہوں گی ، اگر میں نے یہ خدمت چھوڑ دی تو مسجد انتظامیہ کے حوالہ کروں گا۔ اس کے لیے وہ وصیت نامہ بھی لکھنے کو آمادہ ہے کہ اس کے ورثاء یہ چیزیں لینے کے حقدار نہیں ہوں گے۔ 

جواب

مسجد کی آمدن ، مصالحِ  مسجد کے لیے ہے،امام مسجد تو مسجد کی ضروریات میں سے ہے ، اور ان کا وظیفہ تو مسجد کے چندہ سے دینا درست ہےالبتہ واشنگ مشین ، موٹر سائیکل اور استری مسجد کی ضروریات میں سے نہیں ، بلکہ مذکورہ امام کی ضروریات میں سے ہیں، اس لیے چندہ کی رقم سے یہ اشیاء خریدنا درست نہیں ، البتہ اگر کوئی شخص یا کئی اشخاص مل کر  انفرادی یا اجتماعی  طور پر یہ اشیاء خرید کر امام صاحب کو فراہم کردیں یا امام صاحب  ان اشیاء کی خریداری کی استطاعت نہ رکھتے ہوں تو ان کی تنخواہ میں اضافہ کردیا جائے اور وہ اپنی رقم سے اپنی ضرورت کی یہ اشیاء خرید لیں تو یہ جائز ہوگا۔

الدر مع الرد میں ہے:

"‌ثم ‌ما ‌هو ‌أقرب ‌لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح وتمامه في البحر (قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحة،كالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخرالمصالح."

(كتاب الوقف ،مطلب في وقف المنقول قصدا، ج:4، ص:365، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں