بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کےکمرے کے متصل کمرے سے مقتدیوں کی اقتداء کا حکم


سوال

 دو کمرے ہیں مستقل اور متصل دونوں کے دروازے جنوب کی جانب کھلتے ہیں ،جو کمرہ مغرب کی جانب ہے اس میں صفیں پوری ہونے کے بعد پچھلے والے کمرے میں صفیں لگا کر ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ دریافت طلب امور یہ ہیں :

کیا درمیان میں چھت سمیت دیوار حائل ہونے کے باوجود پچھلے کمرے میں نماز پڑھنے والوں کی نماز ہوجاۓگی جبکہ آواز مائک سے یا کبھی بلامائک کے بھی چلی جاتی ہے اگر بلند یا درمیانی آواز والا امام ہو۔

 

جواب

صورت مسئولہ میں اگر صفیں  متصل ہیں یعنی کمرے کی دیوار کے علاوہ اور کوئی حائل نہیں ہے   اوردوسرے کمرے والوں کو  امام  کی حالت یعنی تکبیرات انتقال کا حال معلوم ہور ہاہو (چاہے امام کی آواز کے ذریعہ یا مائک کے ذریعہ یا مکبر کی آواز کے ذریعہ )تو  دوسرے کمرے  میں موجود  مقتدیوں کی نماز شرعًا درست ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقا، كأن قام في الطريق ثلاثة، وكذا اثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنه لكراهة صلاته صار وجوده. كعدمه في حق من خلفه.

(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح قنية، ولا حكما عند اتصال الصفوف."

(قوله كمسجد وبيت) فإن المسجد مكان واحد، ولذا لم يعتبر فيه الفصل بالخلاء إلا إذا كان المسجد كبيرا جدا وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لا حكم الصحراء كما قدمناه عن القهستاني. وفي التتارخانية عن المحيط: ذكر السرخسي إذا لم يكن على الحائط العريض باب ولا ثقب؛ ففي رواية يمنع لاشتباه حال الإمام، وفي رواية لا يمنع وعليه عمل الناس بمكة، فإن الإمام يقف في مقام إبراهيم، وبعض الناس وراء الكعبة من الجانب الآخر وبينهم وبين الإمام الكعبة ولم يمنعهم أحد من ذلك. اهـ.

وبهذا يعلم أن المنبر إذا كان مسدودا لا يمنع اقتداء من يصلي بجنبه عند عدم الاشتباه، خلافا لمن أفتى بالمنع وأمر بفتح باب فيه من علماء الروم (قوله عند اتصال الصفوف) أي في الطريق أو على جسر النهر، فإنه مع وجود النهر أو الطريق يختلف المكان، وعند اتصال الصفوف يصير المكان واحدا حكما فلا يمنع كما مر، وكأنه أراد بالحائل في كلام المصنف ما يشمل الحائط وغيره كالطريق والنهر، إذ لو أريد به الحائط فقط لم يناسب ذكر هذا الكلام هنا تأمل.ـ"

 (‌‌‌‌كتاب الصلاة،باب الإمامة،1/ 584،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں