بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کے اگلی رکعت کے لیے کھڑے ہوجانے کے بعد مقتدی کا تشہد مکمل کرنے کا حکم


سوال

اگر امام مقتدی کے تشہد سے فارغ ہونے سے پہلے اگلی رکعت کے لیے کھڑا ہو جائے ،تو مقتدی کتنی دیر تک بیٹھ کر تشہد پڑھے گا؟اور خلاصۃ الفتاوی کی اس عبارت کا مقصد کیا ہے ؟"وفي نوادي سلمان أنه يتمه وإن خاف فوت الركعة لأنه في موضعه من كل وجه وهو واجب."(1/159)

جواب

صورت مسئولہ میں جب قعدہ اولیٰ میں امام مقتدی کے تشہد سے فارغ ہونے سے پہلے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے ،تو ایسی صورت میں مقتدی کےلیے بہتر  یہ ہے کہ وہ  امام کی متابعت نہ کرے ،بلکہ پہلے تشہد کو مکمل کرے ،اس کے بعد امام کی اتباع میں تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو،اور اگر مقتدی امام کی متابعت میں تشہد مکمل کیے بغیر بھی تیسر ی رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے ،تو بھی جائز ہے ،البتہ   ایسا کرنے کی صور ت میں نمازکراہت تحریمی کے ساتھ درست ہوگی ۔ 

باقی خلاصۃ الفتاوی کی مذکورہ عبارت مکمل یوں ہے :

"ولو قام الإمام الي الثالثة ولم يتم المقتدي التشهد بعد يتم التشهد ،وفي نوادر سلمان أنه يتمه وإن خاف فوت الركعة لأنه في موضعه من كل وجه وهو واجب."

(كتاب الصلوة،الفصل الخامس عشر في الإمامة والإقتداء،نوع منه فيما يتابع الامام في الصلوة وفيما لايتابعه،ج:1،ص:159،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجب متابعته) وكذا عكسه فيعود ولا يصير ذلك ركوعين (بخلاف سلامه) أو قيامه لثالثة (قبل تمام المؤتم التشهد) فإنه لا يتابعه بل يتمه لوجوبه، ولو لم يتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعية التشهد تابعه لأنه سنة والناس عنه غافلون.

(قوله وجب متابعته) أي في الأصح من الروايتين كما في البحر (قوله وكذا عكسه) وهو أن يرفع المأموم رأسه من الركوع أو السجود قبل أن يتم الإمام التسبيحات ح (قوله فيعود) أي المقتدي لوجوب متابعته لإمامه في إكمال الركوع وكراهة مسابقته له: فلو لم يعد ارتكب كراهة التحريم (قوله ولا يصير ذلك ركوعين) لأن عوده تتميم للركوع الأول لا ركوع مستقل ح (قوله فإنه لا يتابعه إلخ) أي ولو خاف أن تفوته الركعة الثالثة مع الإمام كما صرح به في الظهيرية، وشمل بإطلاقه ما لو اقتدى به في أثناء التشهد الأول أو الأخير، فحين قعد قام إمامه أو سلم، ومقتضاه أنه يتم التشهد ثم يقوم ولم أره صريحا، ثم رأيته في الذخيرة ناقلا عن أبي الليث: المختار عندي أنه يتم التشهد وإن لم يفعل أجزأه اهـ ولله الحمد (قوله لوجوبه) أي لوجوب التشهد كما في الخانية وغيرها، ومقتضاه سقوط وجوب المتابعة كما سنذكره وإلا لم ينتج المطلوب فافهم (قوله ولو لم يتم جاز) أي صح مع كراهة التحريم كما أفاده ح، ونازعه ط والرحمتي، وهو مفاد ما في شرح المنية حيث قال: والحاصل أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة فإن عارضها واجب لا ينبغي أن يفوته بل يأتي به ثم يتابعه لأن الإتيان به لا يفوت المتابعة بالكلية وإنما يؤخرها، والمتابعة مع قطعه تفوته بالكلية، فكان تأخير أحد الواجبين مع الإتيان بهما أولى من ترك أحدهما بالكلية، بخلاف ما إذا عارضتها سنة لأن ترك السنة أولى من تأخير الواجب. "

(کتاب الصلوۃ،فروع قرأ بالفارسية أو التوراة أو الإنجيل، ج1، ص496، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"مطلب مهم في تحقيق متابعة الإمام

(قوله ومتابعة الإمام) قال في شرح المنية: لا خلاف في لزوم المتابعة في الأركان الفعلية إذ هي موضوع الاقتداء. واختلف في المتابعة في الركن القولي وهو القراءة؛ فعندنا لا يتابع فيها بل يستمع وينصت وفيما عدا القراءة من الأذكار يتابعه.....

والحاصل أن المتابعة في ذاتها ثلاثة أنواع: مقارنة لفعل الإمام مثل أن يقارن إحرامه لإحرام إمامه وركوعه لركوعه وسلامه لسلامه، ويدخل فيها ما لو ركع قبل إمامه ودام حتى أدركه إمامه فيه. ومعاقبة لابتداء فعل إمامه مع المشاركة في باقيه. ومتراخية عنه، فمطلق المتابعة الشامل لهذه الأنواع الثلاثة يكون فرضا في الفرض، وواجبا في الواجب، وسنة في السنة عند عدم المعارض أو عدم لزوم المخالفة كما قدمناه. ولا يشكل مسألة المسبوق المذكورة لأن القعدة وإن كانت فرضا لكنه يأتي بها في آخر صلاته التي يقضيها بعد سلام إمامه، فقد وجدت المتابعة المتراخية فلذا صحت صلاته، والمتابعة المقيدة بعدم التأخير والتراخي الشاملة للمقارنة والمعاقبة لا تكون فرضا بل تكون واجبة في الواجب وسنة في السنة عند عدم المعارضة وعدم لزوم المخالفة أيضا، والمتابعة المقارنة بلا تعقيب ولا تراخ سنة عنده لا عندهما، وهذا معنى ما في المقدمة الكيدانية حيث ذكر المتابعة من واجبات الصلاة ثم ذكرها في السنن، ومراده بالثانية المقارنة كما ذكره القهستاني في شرحها.

إذا علمت ذلك ظهر لك أن من قال إن المتابعة فرض أو شرط كما في الكافي وغيره أراد به مطلقا بالمعنى الذي ذكرناه، ومن قال إنها واجبة كما في شرح المنية وغيره أراد به المقيدة بعدم التأخير، ومن قال إنها سنة أراد به المقارنة، الحمد لله على توفيقه، وأسأله هداية طريقه."

(کتاب الصلوۃ،واجبات الصلاة،ج:1،ص:470،ط:سعید)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"تنبيه: من الواجب متابعة المقتدى إمامه في الأركان الفعلية....أما لو قام الإمام إلى الثالثة قبل أن يتم المقتدي التشهد فإنه يتم ثم يقوم لأن التشهد واجب وإن لم يتم وقام للمتابعة جاز وكذا لو سلم في القعدة الأخيرة قبل أن يتمه بخلاف ما إذا رفع رأسه قبل التسبيح أو سلم قبل الصلاة عليه صلى الله عليه وسلم فإنه يتابعه والحاصل أن متابعة الإمام في الفرائض والواجبات من غير تأخير واجبة فإن عارضها واجب آخر لا ينبغي أن يفوت ذلك الواجب بل يأتي به ثم يتابع لأن الإيان به لا يفوت المتابعة بالكلية وإنما يؤخرها والمتابعة مع قطعه تفوت الواجب بالكلية فكان الإتيان بالواجبين مع تأخير أحدهما أولى من ترك أحدهما بالكلية."

(كتاب الصلاة،فصل في بيان  واجب الصلاة،ص:255،ط:دار الكتب العلمية)

عمدۃ الفقہ میں ہے :

’’جن چیزوں میں مقتدی کو امام کی متابعت کرنی چاہیے اور جن چیزوں میں نہیں ‘‘:

1.اگر مقتدی قعدہ اولی کے تشہد میں شریک ہوا،اور امام مقتدی کا تشہد پورا کرنے سے پہلے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا یا قعدہ اخیرہ میں شریک ہوا ،اور امام نے مقتدی کا تشہد پورا کرنے سے پہلے سلام پھیر دیا ،یا مقتدی پہلے سے نماز میں شریک تھا ،لیکن امام قعدہ اولی میں تشہد پورا پڑھنے کے بعد تیسری رکعت کے لیے کھڑ ا ہوگیا یا قعدہ اخیرہ میں سلام پھیر دیا ،اور ابھی مقتدی کا تشہد پورا نہیں  ہوا ،تو مختار یہ ہے کہ مقتدی امام کی متابعت نہ کرے بلکہ تشہد پورا کرے کیونکہ یہ واجب ہے ،پھر امام کی متا بعت کرے،اور اگر تشہد پورا نہ کرے بلکہ امام کے ساتھ تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے یا قعدہ اخیرہ میں سلام پھیر دے تب بھی جائز ہے ،کیوں کہ جیسے تشہد کا پڑھنا واجب ہے متابعت امام بھی واجب ہے تو ایک واجب کوترک کرکے دوسرے کو کرنا بلاکراہت درست ہے ،لیکن صحیح یہ ہے کہ جائز کا مطلب یہاں یہ ہے کہ نماز کراہت تحریمی کے ساتھ درست ہوجائے گی ،کیونکہ تشہد کا پڑھنا واجب ہے اور متابعت امام کر کے کھڑا ہونے یا سلام پھیرنے  میں ترک واجب ہوگا ،جو کہ مکروہ تحریمی ہے،اور تشہد پورا کرکے کھڑا ہونے یا سلا م پھیرنے میں متابعت امام جو واجب ہے ترک نہیں ہوگی،بلکہ اس میں تاخیر ہوجائے گی،پس دونوں واجبوں پر عمل کرنا اگرچہ ایک کی تاخیر کے ساتھ ہوضروری ہے ،بجائےاس کے کہ ایک واجب پر عمل کرنے کے لیے دوسرے کو ترک کردیا جائے ،اور تشہد میں شامل ہونےوالے مقتدی پر بھی امام کی متابعت کی وجہ سے تشہد کا پڑھنا واجب ہوگیا ،اگرچہ اس کے تشہد میں شامل ہونے کے بعد ہی امام کھڑا ہوجائے یا سلام پھیر دے،پس اس کو اپنا تشہد پورا کر کے امام کی متابعت کرنی چاہیے،اگر چہ اس کو اما م کے ساتھ تیسر ی رکعت کے فوت ہونے کا خوف ہو(جس قدر وہ امام سے پیچھے رہ جائے ،اس کو لاحق کی طرح پڑ ھ کر امام کے ساتھ مل جائے ،جیسا کہ آگے نمبر ۲ میں آتا ہے ۔۔۔۔

2.امام پہلے قعدہ کے تشہد سے فارغ ہوکر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا ،اور مقتدیوں میں سے کوئی شخص تشہد پڑھنا بھول گیا ،یہاں تک کہ سب لوگ کھڑے ہوگئے،تو جس شخص نے تشہد نہیں پڑھا ہے ،اس کو چاہیے کہ پھر لوٹے اور تشہد پڑھے پھر امام کے ساتھ ہوجائے،اگرچہ اس کو رکعت کے فوت ہوجانے کا خوف ہو(یعنی اگر تشہد پڑھ کر اما م کے ساتھ قیام میں  مل جائے تو فبہا ،ورنہ ایک مرتبہ سبحان اللہ کی مقدار  قیام کرکے رکوع میں چلا جائے ،پس اگر امام کے ساتھ رکوع میں شرکت ہوگئ،تو اچھا ہے ورنہ پیچھے پیچھے اپنے رہے ہوئے ارکا ن کرتا جائے ،یہاں تک کہ امام سے مل جائے،اور اگر امام کے  سلام پھیرنے تک بھی امام کا شریک نہ ہوسکے تو باقی ماندہ نماز اما م کے سلام کے بعد لاحقانہ ادا کرکے سلام پھیر دے)۔"

(امامت کا بیان، ج:2،ص:216،ط:زوار اکیڈمی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411101889

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں