بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کو تنگ کرنا /اور اس کے پیچھے نمازنہ پڑھنے کا حکم


سوال

ایک شخص اکثر مسجد کے امام کوتنگ  کر کے جماعت کے وقت جماعت چھوڑ کر اکیلا مسجد میں نماز ادا کرتا ہے ، کیا اس شخص کی نما ز ہو جائے گی ۔

جواب

صورت مسئولہ میں   مسجد کے امام کو تنگ کرنا یا نامناسب رویہ رکھنا  شرعا درست اور جائز نہیں ہے ، اسی طرح مذکورہ شخص کا  مسجدمیں جماعت کھڑی ہونے کے بعد امام کو تنگ کر نے کے لیے  جماعت میں شامل نہیں ہو نا اور اپنی نماز پڑھنے سے نماز تو ہوجائیگی البتہ  یہ انتہائی برا عمل ہے اور مذکورہ شخص اپنے اس عمل کی وجہ سے ملامت کامستحق ہے؛کیونکہ اس کا یہ عمل یقینا  مسجد میں انتشار اور فتنہ کاباعث بنے گا جو کہ جائز نہیں ہے ۔

حدیث میں ہے :

"حدثنا شعبة، عن عبد الله بن أبي السفر، وإسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه»."

(صحیح البخاری، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده11/1،دار طوق النجاة)

مرقاة المفاتيح  میں ہے :

"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".

(کتاب الصلوۃ ، باب الامامۃ،3/ 865،دار الفكر)

فتاوى الهندية میں ہے  :

"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط".

(کتاب الصلوۃ ،الفصل الرابع فی بیان ما یمنع صحۃ الاقتداءومالا یمنع،1/ 87،المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں