بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کو رکوع کی حالت میں پانے والا فوراً رکوع میں جائے یا ٹھہر کر؟


سوال

اگر امام صاحب رکوع میں چلے گۓ تو پیچھے سے آنے والے مقتدی نیت باندھتے ہی رکوع میں جاۓ یاتین تسبیحات کی مقدار کھڑے رہے، پھر رکوع میں جاۓ؟

جواب

اگر کوئی شخص ایسے وقت میں جماعت میں حاضر ہو جب کہ امام صاحب قعدہ میں ہوں یا رکوع میں ہوں اور رکعت نکلنے کا خطرہ نہ ہو (یعنی امام کو رکوع میں پانے کا غالب گمان ہو) تو اسے چاہیے کہ (نماز میں شامل ہونے کے لیے) ایک مرتبہ کھڑے کھڑے  تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد ثناء پڑھ کر کر قعدہ یا رکوع میں جائے۔

لیکن اگر امام کو رکوع کی حالت میں پانے کی صورت میں رکعت نکلنے کا خطرہ ہو تو کھڑے کھڑے ایک مرتبہ تکبیر تحریمہ کی نیت سے تکبیر کہنے کے بعد ہاتھ باندھے بغیر فورًا  دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے، تاکہ امام کے رکوع سے اٹھنے سے پہلے رکوع میں امام کو پانے کی وجہ سے یہ رکعت کو پانے والا شمار ہو ۔تین تسبیحات کی مقدار کھڑا رہنا ضروری نہیں ہے۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1 / 185):

"ثم إذا أدرك الإمام في الركوع وهو يعلم أنه لو اشتغل بالثناء لا يفوته الركوع يثني؛ لأنه أمكنه الجمع بين الأمرين وإن كان يعلم أنه يفوته قال بعضهم يثني؛ لأن الركوع يفوت إلى خلف و هو القضاء والثناء يفوت أصلا وقال بعضهم لا يثني؛ لأنه وإن كان لا يفوته فسنة الجماعة فيها تفوته وفضيلة الجماعة أكثر من فضيلة الثناء."

الفتاوى الهندية (1 / 91):

"و إن أدرك الإمام في الركوع أو السجود يتحرى إن كان أكبر رأيه أنه لو أتى به أدركه في شيء من الركوع أو السجود يأتي به قائمًا و إلا يتابع الإمام و لايأتي به وإذا لم يدرك الإمام في الركوع أو السجود لايأتي بهما وإن أدرك الإمام في القعدة لايأتي بالثناء بل يكبر للافتتاح ثم للانحطاط ثم يقعد، هكذا في البحر الرائق في صفة الصلاة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201996

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں