بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کو رکوع یا قعدہ میں پانے کی صورت میں تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھنے کا حکم


سوال

جب مسبوق امام کو رکوع یا سجدے یا  قعدہ میں پائے تو آ یا وہ اللّٰہ اکبر کہہ کر ہاتھ ناف کے نیچے باندھےگا پھر رکوع یا سجدےیا قعدہ میں جائے گایا   محض تکبیر کہہ کرہاتھ باندھے بغیررکوع یا سجدے میں یاقعدہ میں چلا جائےگا ؟

تینوں صورتوں کے جواب مطلوب ہے۔

جواب

 واضح رہے کہ نماز میں تکبیر تحریمہ کے بعد ناف کے نیچے دونوں ہاتھ باندھنا سنت ہے،فرض یا واجب نہیں ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص ایسے وقت میں جماعت میں حاضر ہو جب کہ امام صاحب رکوع میں ہوں یا سجدے میں ہوں یا قعدہ  میں ہوں اور رکعت یا جمعہ یاجماعت نکلنے کا خطرہ نہ ہو تو اسے چاہیے کہ (نماز میں شامل ہونے کے لیے) ایک مرتبہ کھڑے کھڑے  تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد تھوڑی دیر ہاتھ باندھ کر ، پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع یاسجدےیاقعدہ  میں جائے،تا کہ سنت بھی ادا ہو جائے۔

لیکن اگر امام کو رکوع کی حالت میں پانے کی صورت میں رکعت نکلنے کا خطرہ ہو  تو تکبیر ِتحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھےبغیر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے  لیکن اگر صرف تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھےاوردوسری تکبیر کہے بغیر رکوع میں چلا گیا، اور امام کے ساتھ شریک ہو گیا، تو وہ رکعت اس کومل گئی، اور نماز بھی صحیح ہو جائے گی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اسی طرح  اگر امام کو سجدے کی حالت میں پانے کی صورت میں سجدےکے نکلنے کا خطرہ ہو  تو تکبیر ِتحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھےبغیر دوسری تکبیر کہہ کر سجدے میں چلا جائے  لیکن اگر صرف تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھے اوردوسری تکبیر کہے بغیر سجدے میں چلا گیا، اور امام کے ساتھ شریک ہو گیا، تو وہ سجدہ اس کومل گیا، اور نماز بھی صحیح ہو جائے گی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اسی طرح  اگر امام کو قعدہ اخیرہ میں پانے کی صورت میں جمعہ یا جماعت نکلنے کا خطرہ ہوتوتکبیر ِتحریمہ کہہ کر  ہاتھ باندھےبغیر دوسری تکبیر کہہ کر قعدہ میں چلا جائے  لیکن اگر صرف تکبیر تحریمہ کہہ کر  ہاتھ باندھے اوردوسری تکبیر کہے بغیر قعدہ میں چلا گیا، اور امام کے ساتھ شریک ہو گیا،تواسےجمعہ یاجماعت مل جائےگی، اور نماز بھی صحیح ہو جائے گی۔ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

کنز الدقائق میں ہے:

"‌وسننها ‌رفع ‌اليدين ‌للتحريمة ونشر أصابعه وجهر الإمام بالتكبير والثناء والتعوذ والتسمية والتأمين سرا ووضع يمينه على يساره تحت سرته."

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، 160،ط: دار البشائر الإسلامية)

وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:

"‌‌فصل في بيان سننها

بيان "سننها" أي الصلاة "وهي إحدى وخمسون" تقريبا فيسن "رفع اليدين للتحريمة حذاء الأذنين للرجل......................"و" من أحكم أحكام السنة أن تركها لا يفسد الصلاة ولا يوجب سجود السهو غير أنه يكون مسيئا إذا تركها عمدا والإساءة أخف من الكراهة ويثاب على فعلها ويلام على تركها..............."و" يسن "وضع الرجل يده اليمنى على اليسرى تحت سرته" لحديث علي رضي الله عنه أن من السنة وضع اليمنى على الشمال تحت السرة "وصفة.

فصل في بيان سننها.

ترك السنة لا يوجب فسادا ولا سهوا بل إساءة لو عامدا غير مستخف وقالوا: الإساءة أدون من الكراهة در أي التحريمية وفي السيد عن النهر عن الكشف الكبير حكم السنة أنه يندب إلى تحصيلها ويلام على تركها مع لحوق إثم يسير اهـ."

(كتاب الصلاة،فصل في بيان سننها،258/256، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وإذا جاء المسبوق إلى الإمام وهو راكع وفي يد هذا المسبوق شيء، فوضعه حتى … فكبر تكبيرتين، ودخل في الصلاة قال هشام: قال أبو حنيفة رحمه الله: لو وقع تكبيرة الافتتاح قائماً وهو مستوي أيضاً صح الشروع، وإن وقع وهو منحط عنه غير مستوى لا يجوز."

"وإن ركع المسبوق وسوى ظهره صار مدركاً للركعة قدر على التسبيح أو لم يقدر، وإن لم يقدر على تسوية الظهر في الركوع حتى رفع الإمام رأسه فاته الركوع."

(كتاب الصلاة،‌‌الفصل الثالث والثلاثون،ج:2،ص:211،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أدرك إمامه راكعا يحرم قائما وكبر ويأتي بالثناء وتكبيرات العيد قائما إن غلب على ظنه أنه يدرك الإمام في الركوع وإن خشي أن يفوته الركوع يركع ولا يأتي بالتكبيرات وكبر في ركوعه، كذا في الكافي في باب صلاة العيد.

ومدرك الإمام في الركوع لا يحتاج إلى تكبيرتين خلافا لبعضهم ولو نوى بتلك التكبيرة الواحدة الركوع لا الافتتاح جاز ولغت نيته، كذا في فتح القدير".

(كتاب الصلاة،الباب العاشر،ج:1،ص:120،ط: رشيدية)

 وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح :

"ومن أدركها" أي الجمعة "في التشهد أو" في "سجود السهو" وتشهده "أتم جمعة" لما رويناه وما فاتكم فاقضوا وهذا عندهما وقال محمد إن أدركه قبل رفع رأسه من ركوع الثانية أتم جمعة وإلا أتم ظهرا وفي العيد يتمه اتفاقا."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة،522، ط:دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

نمازکےمسائل کاانسائیکلوپیڈیامیں ہے:

امام رکوع میں ہے تو آنے والا کیا کرے؟

"اگر امام رکوع میں ہے تو اس وقت آنے والے آدمی کو چاہئے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر اگر موقعہ ہے تو تھوڑی دیر کے لئے ہاتھ باندھ کر پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے ، اور اگر موقعہ نہیں تو تکبیر ِتحریمہ کہہ کر پھر دوسری تکبیر کہہ کر رکوع میں چلا جائے یہ مسنون طریقہ ہے،  لیکن اگر صرف تکبیر تحریمہ کہہ کر دوسری تکبیر کہے بغیر رکوع میں چلا گیا، اور امام کے ساتھ شریک ہو گیا، تو وہ رکعت اس کومل گئی، اور نماز بھی صحیح ہو جائے گی۔ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ "

(نماز کےمسائل کاانسائیکلوپیڈیا، 234/1، ط:بیت العمار)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144507100652

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں