امام کے لیے ایک ماہ میں کتنی رخصت کی اجازت ہے ؟ زید مسجد میں امام ہے ، رخصت کے وقت تنخواه کاٹنا جائز ہے؟ اورجو غیر شرعی قوانین کے تحت اس کی تنخواہ میں سے کاٹتے ہیں اس کاکیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ امام کو مقرر کرتے وقت امام اور کمیٹی کے درمیان جو معاہدہ طے ہو، ماہانہ جتنی چھٹیاں اور رخصت طے ہوں، اس کی پاسداری کرنا ضروری ہے، اگر امام اس سے زائد چھٹی کرے گا، تو کمیٹی کو طے شدہ معاہدے کے تحت تنخواہ کی کٹوتی کا اختیار ہوگا۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جو معاہدہ طے ہو، اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے اور امام کا اس سے زائدچھٹی کرنا درست نہیں ہے، امام کو جتنے ایام کی رخصت کی اجازت ہے، ان ایام کی تنخواہ لینا جائز ہے،اور اگر کمیٹی کی طرف سے اس کی بھی تنخواہ کاٹی جائے، تو یہ درست نہیں ہے۔
مبسوطِ سرخسی میں ہے:
"ولو كان يبطل من الشهر يوما أو يومين لا يرعاها حوسب بذلك من أجره سواء كان من مرض أو بطالة؛ لأنه يستحق الأجر بتسليم منافعه، وذلك ينعدم في مدة البطالة سواء كان بعذر أو بغير عذر."
(كتاب الإجارة، باب إجارة الراعي، ج:15، ص:162، ط: دارالمعرفة)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ اپنے معاملہ میں جس قدر ایام کی چھٹی بلا تنخواہ اور جس قدر مع تنخواہ چاہیں، رضامندی سے طے کرلیں، کسی خاص بات پر مجبور نہیں کیا۔"
(کتاب الوقف، ج:23، ص:288، ط:فاروقیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404100463
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن