بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام كس قدر بلندی میں امامت کراسکتا ہے؟


سوال

گرمی کی وجہ سے مسجد کے صحن میں نماز اور تراویح ادا کی جاتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امام تھوڑا سااوپر ہوتا ہے اور مقتدی نیچے ہوتے ہیں، کیا اس طرح نماز ہوجائے گی؟

جواب

 واضح رہے کہ اگر امام بلا ضرورت  ایک ذراع  (شرعی گز = 18 انچ) کے برابر یا اس سے زیادہ اونچائی پر کھڑا ہو جس سے امتیاز حاصل ہوتا ہو اور امام کے ساتھ مقتدی  بھی نہ ہوں تو پھر نماز مکروہ ہو گی، اور  اگر اتنی اونچی جگہ پر امام کو کھڑے ہونے کی ضرورت پیش آئے تو کچھ مقتدی بھی امام کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، اس صورت میں  نماز  مکروہ نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر امام  ایک ذراع  (شرعی گز = 18 انچ)کے برابر یا اس سے زیادہ اونچائی پرکھڑا ہوتا ہو  تو  کچھ مقتدی بھی امام کے ساتھ کھڑے ہوجائیں؛ تاکہ نماز مکروہ نہ ہوجائے، اوراگر امام  ایک ذراع سے کم اونچائی پر کھڑا ہوتا ہو  تو نماز بلاکراہت درست ہوجائے گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وانفراد الإمام على الدكان) للنهي، وقدر الارتفاع بذراع، ولا بأس بما دونه، وقيل ما يقع به الامتياز وهو الأوجه ذكره الكمال وغيره (وكره عكسه) في الأصح وهذا كله (عند عدم العذر) كجمعة وعيد، فلو قاموا على الرفوف والإمام على الأرض أو في المحراب لضيق المكان لم يكره لو كان معه بعض القوم في الأصح،(عند عدم العذر) كجمعة وعيد."

(کتاب الطهارۃ، باب ما يفسد الصلاة و ما يكره فيها، ج: 1، ص:646، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويكره قيام الإمام وحده في الطاق وهو المحراب ولا يكره سجوده فيه إذا كان قائما خارج المحراب هكذا في التبيين وإذا ضاق المسجد بمن خلف الإمام فلا بأس بأن يقوم في الطاق. كذا في الفتاوى البرهانية ويكره أن يكون الإمام وحده على الدكان وكذا القلب في ظاهر الرواية. كذا في الهداية وإن كان بعض القوم معه فالأصح أنه لا يكره. كذا في محيط السرخسي ثم قدر الارتفاع قامة ولا بأس بما دونها ذكره الطحطاوي وقيل: إنه مقدر بما يقع به الامتياز، وقيل: بمقدار الذراع اعتبارا بالسترة وعليه الاعتماد. كذا في التبيين وفي غاية البيان هو الصحيح. كذا في البحر الرائق."

(کتاب الطهارۃ، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الثاني فيما يكره في الصلاة وما لا يكره، ج: 1، صفحہ: 108، ط: دار الفکر)

 البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: وانفراد الإمام على الدكان وعكسه) أما الأول فلحديث الحاكم مرفوعا «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أن يقوم الإمام فوق ويبقى الناس خلفه» وعللوه بأنه تشبه بأهل الكتاب فإنهم يتخذون لإمامهم دكانا أطلقه فشمل ما إذا كان الدكان قدر قامة الرجل أو دون ذلك وهو ظاهر الرواية وصححه في البدائع لإطلاق النهي وقيده الطحاوي بقدر القامة ونفى الكراهة فيما دونه وقال قاضي خان في شرح الجامع الصغير إنه مقدر بذراع اعتبارا بالسترة وعليه الاعتماد وفي غاية البيان وهو الصحيح وفي فتح القدير وهو المختار لكن قال الأوجه الإطلاق وهو ما يقع به الامتياز لأن الموجب وهو شبه الازدراء يتحقق فيه غير مقتصر على قدر الذراع اهـ."

(کتاب الصلاۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، تغميض عينيه في الصلاة، ج: 2، صفحہ: 28، ط:  دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں