بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کی تنخواہ مشتبہ مال سے دینا


سوال

 میں ایک مسجد میں امام ہوں اوں اور یہاں پر سب کا کاروبار دو نمبر کا ہے تو میرے لیے تنخواہ وغیرہ اور سب انہیں کی طرف تو میرے لیے تنخواہ لینا اور کھانا وغیرہ کھانا کیا سب جائز ہے اس بنا پر کہ سب لوگ دو نمبر کا کام کرتے ہیں کاروبار وغیرہ ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کاایسی جگہ پرامامت کرناجہاں لوگوں کا کاروبار مشتبہ ہے تو ایسی صورت میں سائل کا اس سے کوئی  واسطہ نہیں  ہے ،اس لیےسائل  جب نمازپڑھاکراپنی ذمہ داری پوری کرلیتاہےتووہ اجرت کامستحق ہوجاتاہے، اب اگرکمیٹی والے مشتبہ مال سے امامت کی تنخواہ دیتے ہیں توکراہت کےساتھ تنخواہ جائز ہے، سائل کو چاہیے کہ کمیٹی والوں کو کہہ دے کہ کسی سے حلال رقم لے کر  تنخواہ دیں،  پھر کراہت بھی نہیں ہوگی۔

دررالحكام شرح مجلة الاحكام ميں ہے:

"الأجير المشترك لايستحق الأجرة إلا بالعمل. أي لايستحق الأجرة إلا بعمل ما استؤجر لعمله؛ لأنّ الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لايسلم له العوض و المعقود عليه هو العمل، أو أثره على ما بينا؛ فلا بدّ من العمل. فمتى، أوفى العامل العمل استحقت الأجرة."

(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر: المادة 424 الأجير المشترك 457/1  ط:دار جيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101527

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں