بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام ومدرس کی تنخواہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے


سوال

مسجد، مدرسہ میں امام و مدرس کی تنخواہ  کے لیے چندہ کر کے رقم جمع کرنے کی ذمہ داری امام و مدرس پر ہے، یا ذمہ داران پر؟کیا امام و مدرس پر ان کی تنخواہ کے بقدر یا ان کی تنخواہ کی نصف مقدار کے بقدر چندہ کرنا لازم قرار دینا درست ہے؟ دونوں صورت مسئولہ اس وقت کی ہیں  جب کہ تقرر کے وقت چندہ کے سلسلہ میں کوئی بات چیت نہ ہوئی ہو۔ براہِ کرم مع حوالہ جواب عنایت فرمائیں؟

جواب

 امامت، تدریس، اذان دینا اور ‏مسجد میں خدمت کرنا یہ سب شرعی لحاظ سے "عقدِ اجارہ" ہے، اور عقد اجارہ میں  شرعاً تنخواہ دینا مسجد ومدرسے  کی انتظامیہ پر لازم ہوتی ہے،اور  چندہ بھی انتظامیہ پر    کرنا ہی  لازم ہے،امام ومدرس پر  چندہ  لازم قرار دینا  شرعاً درست نہیں،  خصوصاً اس وقت جب کہ ابتداء  اس حوالے سے کوئی معاہدہ بھی نہ ہوا ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

" وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: ثلاثة أنا خصمهم يوم القيامة: رجل أعطى بي ثم غدر ورجل باع حرا فأكل ثمنه ورجل استأجر أجيرا فاستوفى منه ولم يعطه أجره ،رواه البخاري". 

(مشكاة المصابيح ، کتاب البيوع، ‌‌باب الاجارة،‌‌ ج:2، ص:899 ، ‌‌ ط: المكتب الإسلامي ، بيروت)

ترجمہ: " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تین آدمی ایسے ہیں  کہ قیامت کے دن میں خود ان سے جھگڑوں گا؛  ایک وہ شخص  ہے جس نے میرے نام کی قسم کھائی پھر وہ قسم توڑ ڈالی،  دوسرا وہ آدمی ہے جس نے کسی آزادم کو پکڑ کر فروخت کردیا پھر اس کی قیمت کھا گیا، تیسرا وہ آدمی جس کو کسی نے مزدوری پر لگایا اور اس سے پورا کام لیا مگر اس کو مزدوری نہ دی۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"ويعطي بقدر الحاجة والفقه والفضل فإن قصر كان الله عليه حسيبا زيلعي‎.‎
‏(قوله: ويعطي بقدر الحاجة إلخ) الذي في الزيلعي هكذا، ويجب على الإمام أن ‏يتقي الله تعالى ويصرف إلى كل مستحق قدر حاجته من غير زيادة فإن قصر ‏في ذلك كان الله تعالى عليه حسيبا. اهـ. وفي البحر عن القنية: كان أبو بكر - ‏رضي الله تعالى عنه - يسوي في العطاء من بيت المال، وكان عمر - رضي الله ‏تعالى عنه - يعطيهم على قدر الحاجة والفقه والفضل، والأخذ بهذا في زماننا ‏أحسن فتعتبر الأمور الثلاثة اه أي فله أن يعطي الأحوج أكثر من غير ‏الأحوج، وكذا الأفقه والأفضل أكثر من غيرهما وظاهره أنه لا تراعى الحاجة في ‏الأفقه والأفضل، وإلا فلا فائدة في ذكرهما، ويؤيده أن عمر - رضي الله تعالى ‏عنه - كان يعطي من كان له زيادة فضيلة، من علم، أو نسب أو نحوه ذلك ‏أكثر من غيره، وفي البحر أيضا عن المحيط والرأي إلى الإمام من تفضيل ‏وتسوية من غير أن يميل في ذلك إلى هوى، وفيه عن القنية وللإمام الخيار في ‏المنع والإعطاء في الحكم. اه.‏"

 (الدر المختار مع رد المحتار، ج:4، ص:219، ط: دار الفکر)‏

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں