بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

امام کی تنخوہ کتنی ہونی چاہیے / انتظامیہ کمیٹی بد اخلاق ہو اس کا حکم


سوال

1۔ کیا اس مہنگائی کے دور میں مسجد کی اچھی خاصی آمدنی کے باوجود امام و خطیب کے لیے 22500 روپے تنخواہ دینا درست ہے۔

2۔امام مسجد سےمسجد کی طرف سے دیے گئے گھر کے   بجلی و غیرہ کے بل کی مد میں رقم وصول کرنا درست ہے؟ 

3۔اگر مسجد انتظامیہ امام کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرے ،جب کہ مؤذن اور خادم کے گھر کے بل کا خرچہ چندے سے ادا کرے تو ایسے افراد کو اخلاقاً از خود مسجد کمیٹی سے استعفاء دے دینا چاہیے؟

4۔اگر مسجد انتظامیہ کو امام کے ساتھ اس طرح کا معاملہ نہیں کرنا چاہیے تھاتو اب انتظامیہ کو اپنی غلطی کی تلافی کیسے کرنی چاہیے؟

جواب

منصبِ امامت ،پیشہ ور ملازمتوں کی طرح کوئی ملازمت نہیں ہے،بلکہ یہ دینِ اسلام کا ایک بہت بڑا معزز اور اہم منصب ہے،اس عظیم منصب کے حامل حضرات کے ساتھ انتہائی اعزاز و احترام کا معاملہ کرنا چاہیے،ان کو اپنا مذہبی پیشوا اور سردار سمجھنا چاہیے،کیوں کہ امام نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے،اللہ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد و ایلچی ہے، ان کو دیگر ملازمین اور نوکروں کی طرح سمجھنا منصب امامت کی سخت توہین و تذلیل ہے۔ اسی طرح امام کی ضروریات،اس کی علمی قابلیت،تقوی وطہارت اور صلاح کوسامنے رکھتے ہوئے حالات کے مناسب  تنخواہ مقرر کرنی چاہیے،کہ وہ یکسوئی کے ساتھ دین کے کاموں میں مشغول ہو۔

  4۔1۔لہذا صورتِ مسئولہ میں  امام صاحب کی تنخواہ اس کی گھریلو ضروریات وحاجات کے لیے ناکافی ہو اور مسجد کا فنڈ بھی موجود ہو تو مسجد کمیٹی ممبران کو اس بارے میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور امام کی ضرویات کے مطابق تنخواہ اور سہولیات مقرر کرنا چاہیے۔

2،3 ۔اگر کمیٹی نے امام صاحب کو اسی شرط کے ساتھ گھر دیا ہو کہ گھر کے بلوں کی ادائیگی امام ہی کے ذمہ لازم ہو گی،  تو اس صورت میں بلوں کی ادائیگی شرعاً  امام کے ہی ذمہ لازم ہو گی۔ مؤذن اور خادم کو کمیٹی جس معاہدہ کی بنیاد پر گھر دے ان پر اس معاہدہ کی پاسداری ضروری ہے، صرف امام پر  معاہدہ کے مطابق گھر کے بلوں کی ادائیگی لازم کرنے سے کمیٹی والوں سے استعفی طلب نہیں کیا جائے گا ۔
فتاوی شامی میں ہے:

"ويجب على الإمام أن يتقي الله تعالى ويصرف إلى كل مستحق قدر حاجته من غير زيادة فإن قصر في ذلك كان الله تعالى عليه حسيبا. اهـ. وفي البحر عن القنية: كان أبو بكر - رضي الله تعالى عنه - يسوي في العطاء من بيت المال، وكان عمر - رضي الله تعالى عنه - يعطيهم على قدر الحاجة والفقه والفضل، والأخذ بهذا في زماننا أحسن فتعتبر الأمور الثلاثة اهـ أي فله أن يعطي الأحوج أكثر من غير الأحوج، وكذا الأفقه والأفضل أكثر من غيرهما وظاهره أنه لا تراعى الحاجة في الأفقه والأفضل، وإلا فلا فائدة في ذكرهما، ويؤيده أن عمر - رضي الله تعالى عنه - كان يعطي من كان له زيادة فضيلة، من علم، أو نسب أو نحوه ذلك أكثر من غيره، وفي البحر أيضا عن المحيط والرأي إلى الإمام من تفضيل وتسوية من غير أن يميل في ذلك إلى هوى، وفيه عن القنية وللإمام الخيار في المنع والإعطاء في الحكم. اهـ."

(کتاب الجهاد، باب العشر والخراج والجزية، ج: 4، ص: 219، سعيد)

وفيه ايضاً:

"المسلمون عند شروطهم."

(كتاب الجهاد، باب المستأمن، ج: 4، ص: 166، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603102157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں