امام صاحب کی عدمِ موجودگی میں ان کے مصلی پر کھڑے ہو کر نماز کی امامت درست ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں امام کی غیر موجودگی میں جماعت کا وقت ہونے پر اگر کوئی ایسا شخص امامت کرادے جس میں امامت کی شرائط موجود ہوں تو یہ جائز ہے، اس سے امام اور مقتدیوں کی نماز ادا ہوجائے گی ، تاہم مذکورہ مسئلے کا تعلق چوں کہ انتظام سے بھی ہے؛ لہذا مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے تقرر یا اجازت کے بغیر ایسا نہ کیا جائے؛تاکہ فتنہ نہ ہو ، اگر انتظامیہ نے امام کی غیر موجودگی میں یا امام نے خود اپنی غیر موجودگی میں کسی کو نائب مقرر کیا ہو تو وہی امامت کا زیادہ حق دار ہوگا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 559):
"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقًا (إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه) لعموم ولايتهما.
(قوله: مطلقًا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه. وفي التتارخانية: جماعة أضياف في دار نريد أن يتقدم أحدهم ينبغي أن يتقدم المالك، فإن قدم واحدا منهم لعلمه وكبره فهو أفضل، وإذا تقدم أحدهم جاز لأن الظاهر أن المالك يأذن لضيفه إكراما له. اهـ. (قوله: وصرح الحدادي إلخ) أفاد أن هذا غير خاص بالسلطان العام الولاية، ولا بالقاضي الخاص الولاية بالأحكام الشرعية، بل مثلها الوالي، وأن الإمام الراتب كصاحب البيت في ذلك. قال في الإمداد: وأما إذا اجتمعوا فالسلطان مقدم، ثم الأمير، ثم القاضي، ثم صاحب المنزل ولو مستأجرا، وكذا يقدم القاضي على إمام المسجد."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144212201994
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن