بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کی آوازسنائی نہ دینے کی صورت میں مقتدی کی نمازکاحکم


سوال

میں جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں گیا ،وہاں پر تین ہال تھے ،نماز پڑھنے کے لیے ایک ہال کھلاتھا،باقی دوہال کا دروازہ بند تھا تو نماز کے دوران بجلی چلی گئی، جس کی وجہ سے امام صاحب کی آواز آنا بند ہو گئی اور بالکل آواز نہ آنے کی وجہ سے ہمارے ہال کی پہلی صف سے کسی نے تکبیر بول کر پہلی رکعت مکمّل کروائی، دوسری رکعت میں کوئی قرات نہیں  ہوئی،اور،لوگوں نے   انفرادی طورپردوسری رکعت ادا کرلی ۔

جن احباب نے اس ہال میں نمازپڑھی   انہوں نے اسی ہال میں پھر سے جماعت کے ساتھ جمعہ کے فرض ادا کیے ۔

اور کچھ نے اپنی اپنی ظہر کی نماز الگ الگ طور پر پوری کی۔

1۔ یہ بتا دیں کہ کس کی نماز نہیں ہوئی اور کس کی ہوگئی ہے ؟

2۔جن لوگوں نے  ظہر پڑھی  تواس کا کیا حکم ہے؟

3۔اور آیا جو جماعت دوبارہ کروائی گئی تھی اس کا کیا حکم ہے ؟

4۔اور اگر ایسا کوئی مسئلہ پیش آئے توایسے موقع پر  کیا کرنا چاہیے ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں جولوگ شروع سے امام کے ساتھ نماز میں شریک تھے ،دوران نماز بجلی چلی جانے کی وجہ سے امام کی آوازسنائی نہیں دی ،پھر جس نے پہلی صف میں امام کی آواز سن کر تکبیر کہی ،اور باقی لوگوں  نے  تکبیر پر پہلی رکعت مکمل کر لی اوردوسری رکعت قراءت کے بغیرمکمل کی توان لوگوں کی جمعہ کی نماز ادانہیں ہوئی؛کیوں کہ اقتداء کے درست ہونے کے لیے تمام انتقالات(قیام سے رکوع،رکوع سے قومہ، اورقومہ میں سے سجدے کے لیے جانا،سجدے سے قعدے کے لیے بیٹھنا)  میں امام کی حالت کا معلوم ہونا ضروری ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولو قام على سطح المسجد واقتدى بإمام في المسجد إن كان للسطح باب في المسجد ولا يشتبه عليه ‌حال ‌الإمام يصح الاقتداء وإن اشتبه عليه ‌حال ‌الإمام لا يصح. كذا في فتاوى قاضي خان".

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة،‌‌ الفصل الرابع في بيان ما يمنع صحة الاقتداء وما لا يمنع، ج:1، ص:88، ط: رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"الثاني:علمه بانتقالات إمامه برؤية أو سماع، فإن كان بينهما حائل يشتبه عليه انتقالاته لم يصح".

(كتاب الصلاة، باب الإمامة،‌‌ شرائط صحة الإمامة، ج:1، ص:365، ط: دار الكتاب الإسلامي)

2۔پھرجنہوں نےدوسری رکعت مکمل کرنےکے بعد اپنی اپنی ظہر کی نماز پڑھی تو اُن کی نماز کراہت تحریمی کے ساتھ ادا ہوگئی، تاہم ظہر پڑھنے کی وجہ سے فریضہ ان کے ذمے سے ساقط ہوچکا ہے؛کیوں کہ شہر میں جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط  موجود ہونے کی صورت میں بغیر عذر کے جمعہ چھوڑ کر ظہر کی نماز پڑھنا گناہ ہے۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فإن صلى الإمام بأهل المصر الظهر يوم الجمعة أجزأهم وقد أساءوا في ترك الجمعة أما الجواز فلأنهم أدوا أصل فرض الوقت ولو لم نجوزها لهم أمرناهم بإعادة الظهر بعد خروج الوقت والأمر بإعادة الظهر عند تفويتها في الوقت وما فوتوها وأما الإساءة فلتركهم أداء الجمعة بعد ما استجمعوا شرائطها وفي حديث ابن عمر قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «من ترك ثلاث جمع تهاونا بها طبع على قلبه".

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، شروط الجمعة، ج:2، ص:25، ط: دار المعرفة، بيروت، لبنان)

3۔اور جن لوگوں نے  اسی ہال میں دوبارہ جمعہ کی جماعت کروائی تھی جہاں پہلی جماعت کروائی گئی تھی تو ان کی   نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ درست ہوگئی ،چاہے دوبارہ خطبہ دیا ہو یا نہ دیا ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:2، ص:552، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

''وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها''۔

(قوله: وكذا كل صلاة إلخ) ۔۔۔ إلا أن يدعي تخصيصها بأن مرادهم بالواجب والسنة التي تعاد بتركه ما كان من ماهية الصلاة وأجزائها، فلا يشمل الجماعة؛ لأنها وصف لها خارج عن ماهيتها ..." الخ

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، واجبات الصلاة، ج:1، ص:457، ط: سعيد)

وفيه ايضا:

"(لاينبغي أن يصلي غير الخطيب)؛ لأنهما كشيء واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلى بالغ جاز) هو المختار".

"(قوله: لأنهما) أي الخطبة والصلاة كشيء واحد؛ لكونهما شرطًا ومشروطًا، ولا تحقق للمشروط بدون شرطه...."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، قبيل مطلب في الصدقة على سؤال المسجد، ج:2، ص:162، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي فتح القدير واعلم أن الخطبة شرط الانعقاد في حق من ينشئ التحريمة للجمعة لا في حق كل من صلاها واشتراط حضور الواحد أو الجمع ليتحقق معنى الخطبة؛ لأنها من النسبيات فعن هذا قالوا: لو أحدث الإمام فقدم من لم يشهدها جاز أن يصلي بهم الجمعة؛ لأنه بنى تحريمته على تلك التحريمة المنشأة فالخطبة شرط انعقاد الجمعة في حق من ينشئ التحريمة فقط، ألا ترى إلى صحتها من المقتدين الذين لم يشهدوا الخطبة فعلى هذا كان القياس فيما لو أفسد هذا الخليفة أن لا يجوز أن يستقبل بهم الجمعة لكنهم استحسنوا جواز استقباله بهم؛ لأنه لما قام مقام الأول التحق به حكما فلو فسد الأول استقبل بهم فكذلك الثاني فلو كان الأول أحدث قبل الشروع فقدم من لم يشهد الخطبة لا يجوز اهـ"

"قالوا: إن الخطبة تعاد على وجه الأولوية لو تذكر الإمام فائتة في صلاة الجمعة، ولو كانت الوتر حتى فسدت الجمعة لذلك فاشتغل بقضائها،وكذا لو كان أفسد الجمعة فاحتاج إلى إعادتها أو افتتح التطوع بعد الخطبة وإن لم يعد الخطبة أجزأه وكذا إذا خطب جنبا كذا في فتح القدير، ولم يفرق بين الفصل القليل والكثير وفرق بينهما في الخلاصة فقال: ولو خطب محدثا أو جنبا ثم توضأ أو اغتسل وصلى جاز، ولو خطب ثم رجع إلى بيته فتغدى أو جامع واغتسل ثم جاء استقبل الخطبة، وكذا في المحيط معللا بأن الأول من أعمال الصلاة بخلاف الثاني فإن ظاهره أن الاستقبال في الثاني لازم وإلا، فلا فرق بين الكل وقد صرح في السراج الوهاج بلزوم الاستئناف وبطلان الخطبة وهذا هو الظاهر؛ لأنه إذا طال الفصل لم يبق خطبة للجمعة بخلاف ما إذا قل وقد علم من تفاريعهم أنه لا يشترط في الإمام أن يكون هو الخطيب،وقد صرح في الخلاصة بأنه لو خطب صبي بإذن السلطان وصلى الجمعة رجل بالغ يجوز".

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، شروط صحة الجمعة، ج:2، ص:158-159، ط: رشيدية)

4۔نیز اس طرح کا واقعہ پیش آنے کی صورت میں پہلے تو جس کی آوازبلندہواور امام کی آواز وہ سنتا بھی ہوتووہ تکبیرکہے باقی اس کی تکبیرسے نماز مکمل کرے ،اوراگرامام کی آواز سنائی نہ دیتی ہواورکوئی تکبیرکہنے والابھی نہ ہوتو ایسی صورت میں اقتداء درست نہیں ہوگی،بلکہ  نماز فاسد ہوجائے گی،البتہ دوبارہ جمعہ کی جماعت کرانا چوں کہ مکروہ تحریمی ہے ،اس  لیے سب سے پہلے تو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ کسی دوسری جامع مسجد میں جمعہ مل جائے،اور اگر دوسری جامع مسجد میں جمعہ نہ مل سکے تو انفرادی طور پر ظہر کی نماز ادا کرلے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولنا أنه - عليه الصلاة والسلام - كان خرج ليصلح بين قوم فعاد إلى المسجد وقد صلى أهل المسجد فرجع إلى منزله فجمع أهله وصلى» ولو جاز ذلك لما اختار الصلاة في بيته على الجماعة في المسجد ولأن في الإطلاق هكذا تقليل الجماعة معنى، فإنهم لا يجتمعون إذا علموا أنهم لا تفوتهم".

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج: 2، ص:253، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311102191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں