بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا / تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم


سوال

۱۔ کیا جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے ہوئے مقتدی کو سورہ فاتحہ اور ساتھ کوئی سورت پڑھنی چاہئے؟ جب کہ نماز ظہر اور عصر ہو۔

۲۔ اور کیا امام کو فرض نماز میں تیسری اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے؟

جواب

۱۔ واضح رہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے  کسی قسم کی  قراءت کرنا خواہ وہ سورہ فاتحہ ہو یا کوئی اور سورت ہو، جائز  نہیں، نیز اس حکم میں سری (ظہر، عصر) اور جہری (فجر، مغرب، عشاء) نمازوں میں کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے، مثلاً: اگر امام کا وضو نہ ہو تو تمام مقتدیوں کی نماز ادا نہیں ہوگی، اگرچہ تمام مقتدی باوضو ہوں۔ اسی طرح امام سے سہو ہوجائے تو تمام مقتدیوں پر سجدہ سہو لازم ہوتاہے، اگرچہ کسی مقتدی سے کوئی سہو نہ ہو۔  اسی طرح اگر تمام مقتدیوں سے بھی سجدہ سہو واجب کرنے والی غلطی ہوجائے،  لیکن امام سے سہو نہ ہو تو مقتدیوں پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، بلکہ امام کی نماز صحیح ہونے کی وجہ سے ان کی نماز بھی صحیح ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا نماز خواہ سری ہو یا جہری امام کی قرأت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوگی۔

قرآن مجید میں باری تعالٰی کا ارشاد ہے:

"وَإِذَا قُرِيَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَانْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ." (سورة الأعراف:204)

ترجمہ:"اور  جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو، امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔" (بیان القرآن)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

’’عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : من كان له إمام، فقراءة الإمام له قراءة.‘‘

(كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: إذا قرأ الإمام فأنصتوا، ج: 1 ص: 227، ط: دار إحياء كتب العربية)

ترجمہ:’’ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قرأت اس کی بھی قرأت ہے۔‘‘

صحیح مسلم میں ہے:

’’عن حیطان بن عبد الله الرقاشي قال: صليت مع أبي موسي الأشعري ... أن رسول الله صلي الله عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا و علمنا صلواتنا فقال: إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم؛ فإذا كبر فكبروا و إذا قرأ فأنصتوا...‘‘

(كتاب الصلاة، باب التشهد في الصلاة، ج: 1، ص: 304، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:" حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہمیں طریقہ بیان کیا اور ہمیں نماز سکھلائی کہ جب تم نماز ادا کرو تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی امامت کرائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو بالکل خاموشی سے سنو۔۔۔ الخ"

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

" عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم ، قال : كل من كان له إمام، فقراءته له قراءة."

 (کتاب الصلاة، من کره القراءة خلف الإمام، ج: 1، ص: 377، ط: دار السلفیة الهندیة)

ترجمہ:’’ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر وہ شخص جس کا امام ہو، اس (امام) کی قراءت اس (مقتدی) کی قراءت ہوگی۔‘‘

۲۔امام کےلئے فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنا سنت ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(واكتفى) المفترض (فيما بعد الأوليين بالفاتحة) فإنها سنة على الظاهر، ولو زاد لا بأس به (قوله ولو زاد لا بأس) أي لو ضم إليها سورة لا بأس به لأن القراءة في الأخريين مشروعة من غير تقدير والاقتصار على الفاتحة مسنون لا واجب فكان الضم خلاف الأولى وذلك لا ينافي المشروعية، والإباحة بمعنى عدم الإثم في الفعل والترك كما قدمناه في أوائل بحث الواجبات."

(کتاب الصلاۃ، باب صفة الصلاۃ، ج: 1، ص: 511، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضاً:

"(والمؤتم لا يقرأ مطلقا) ولا الفاتحة في السرية اتفاقا... (فإن قرأ كره تحريما) وتصح في الأصح."

(كتاب الصلاة، فصل في القراءة، ج: 1، ص: 544، ط: دارالفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100979

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں