بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کے ایک سلام پھیرنے کے بعد دوسرے سلام پھیرنے سے پہلے مسبوق کے کھڑے ہونے کا حکم


سوال

امام کے دوسرے سلام سے پہلے سلام کیے بغیر مصلی(مسبوق) اگر اٹھ جائے تو کیااُس مصلی کی نماز ہوگی یا نہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ مسبوق کو چاہیے  کہ جب امام دونوں سلام پھیر چکے اور اس کا اطمینان ہوجائے کہ امام پر سجدہ سہو لازم نہیں ہے، اُس وقت وہ اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہو، اگر مسبوق امام کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی کھڑا ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں:

1۔۔مسبوق تشہد کے بقدر بیٹھنے سے پہلے ہی کھڑا ہوجائے تویہ جائز نہیں ہے ، اس صورت میں اس کی نماز نہیں ہوگی۔

2۔۔ مسبوق تشہد کے بقدر بیٹھنے کے بعد اور امام کے دونوں سلام سے پھیرنے سے پہلے یا ایک سلام پھیرنے کے بعد دوسرے سلام سے پہلے بغیر کسی عذر کے اپنی نماز پوری کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے تو یہ مکروہِ تحریمی (ناجائز)ہے، تاہم نماز ادا ہوجائے گی۔

3۔۔ مسبوق  اگر کسی عذر کی وجہ سےامام کے دونوں سلام پھیرنے سے پہلے یا امام کے ایک سلام پھیرنے کے بعد دوسرے سلام سے پہلے اپنی بقایا نماز مکمل کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو تو اس  صورت میں ایسا کرنا مکروہ نہیں ہوگا، مثلاً: 

(1) مسبوق نے خفین (موزے) پہنے ہوئے ہیں اور اسے خطرہ ہو کہ اگر امام کے سلام پھیرنے کے بعد نماز مکمل کی  تو مسح کی مدت ختم ہوجائے گی۔

(2) مسبوق معذور شرعی ہے، اور اسے نماز کا وقت نکلنے کا اندیشہ ہے۔

(3) جمعہ کی نماز میں عصر کا وقت داخل ہونے کا اندیشہ ہے یا فجر کی نماز میں سورج طلوع ہونے کا خطرہ ہے۔

(4) مسبوق کو اندیشہ ہو کہ امام کے سلام پھیرتے ہی اتنا رش ہوجائے گا کہ  بعد میں اپنی نماز پوری کرنا مشکل ہوجائے گا۔

(5) مسبوق کو یہ اندیشہ ہو کہ تاخیر کی صورت میں اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

تو اس طرح کے اعذار میں  وہ امام کے دونوں سلام یا دوسرا سلام پھیرنے سے پہلے ہی اپنی نماز پوری کرنے میں مشغول ہوسکتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ نمازی چوں کہ بقدرِ تشہد بیٹھنے اور ایک سلام پھیرنے کے بعد اٹھاتھا،اس لیے مذکورہ نمازی کی نماز ادا ہوگئی،پھرمذکورہ نمازی کا  اپنی نماز مکمل کرنے کے لیےامام کے دوسرے سلام پھیرنے سے پہلے  اٹھنامذکورہ بالا اعذار میں سے کسی عذر کی وجہ سے تھا تو یہ کھڑاہونا بلا کسی کراہت کے درست تھا،اور اگر یہ اٹھنا بلاعذر تھا تو یہ اٹھنا مکروہِ تحریمی تھا۔

في حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:

""و" يسن "انتظار المسبوق فراغ الإمام" لوجوب المتابعة حتى يعلم أن لا سهو عليه.

قوله: "ويسن إنتظار المسبوق فراغ الإمام" أي من تسليمه المرتين قوله: "لوجوب المتابعة" فإن قام قبله كره تحريما وقد يباح له القيام لضرورة كما لو خشي إن إنتظره يخرج وقت الفجر أو الجمعة أو العيد أو تمضي مدة مسحه أو يخرج الوقت وهو معذور وكذا لو خشي مرور الناس بين يديه والله سبحانه وتعالى أعلم وأستغفر الله العظيم."

(كتاب الصلاة، فصل في بيان سننها، ص:276، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

وفي البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري:

"ومن أحكامه أنه لا يقوم إلى القضاء قبل التسليمتين بل ينتظر فراغ الإمام بعدهما لاحتمال سهو على الإمام فيصبر حتى يفهم أنه لا سهو عليه إذ لو كان لسجد وقيده في فتح القدير بحثا بأن محله ما إذا اقتدى بمن يرى سجود السهو بعد السلام إما إذا اقتدى بمن يراه قبله فلا قلت: الخلاف بين الأئمة إنما هو في الأولوية فربما اختار الإمام الشافعي أن يسجد بعد السلام عملا بالجائز فلهذا أطلقوا استنظاره ومن أحكامه أنه لا يقوم المسبوق قبل السلام بعد قدر التشهد إلا في مواضع إذا خاف وهو ماسح تمام المدة لو انتظر سلام الإمام أو خاف المسبوق في الجمعة والعيدين والفجر أو المعذور خروج الوقت أو خاف أن يبتدره الحدث أو أن تمر الناس بين يديه

ولو قام في غيرها بعد قدر التشهد صح ويكره تحريما؛ لأن المتابعة واجبة بالنص قال عليه السلام «إنما جعل الإمام ليؤتم به فلا تختلفوا عليه» وهذه مخالفة له إلى غير ذلك من الأحاديث المفيدة للوجوب."

(كتاب الصلاة، باب الحدث في الصلاة، ج:1، ص: 401، ط: دار الكتاب الإسلامي)

وفي رد المحتار على الدر المختار:

"وينبغي أن يصبر حتى يفهم أنه لا سهو على الإمام، ولو قام قبل السلام هل يعتد بأدائه، إن قبل قعود الإمام قدر التشهد لا، وإن بعده نعم. وكره تحريما إلا لعذر: كخوف حدث، وخروج وقت فجر وجمعة وعيد ومعذور، وتمام مدة مسح، ومرور مار بين يديه.

(قوله وينبغي أن يصبر) أي لا يقوم بعد التسليمة أو التسليمتين، بل ينتظر فراغ الإمام بعدهما كما في الفيض والفتح والبحر. قال الزندويستي في النظم يمكث حتى يقوم الإمام إلى تطوعه أو يستند إلى المحراب إن كان لا تطوع بعدها. اهـ. قال في الحلية: وليس هذا بلازم، بل المقصود ما يفهم أن لا سهو على الإمام أو يوجد له ما يقطع حرمة الصلاة. اهـ."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:597، ط: سعيد)

وفي الفتاوى الهندية:

"(الفصل السابع في المسبوق واللاحق) المسبوق من لم يدرك الركعة الأولى مع الإمام وله أحكام كثيرة. كذا في البحر الرائق.

(منها) أنه..............(ومنها) أنه يقوم قبل السلام بعد قدر التشهد إلا في مواضع إذا خاف المسبوق الماسح زوال مدته أو صاحب العذر خاف خروج الوقت أو خاف المسبوق في الجمعة دخول وقت العصر أو دخول وقت الظهر في العيدين أو في الفجر طلوع الشمس أو خاف أن يسبقه الحدث له أن ينتظر فراغ الإمام ولا سجود السهو أما إذا كان لا تفسد الصلاة بخروج الوقت يتابع وكذا إذا خاف المسبوق أن يمر الناس بين يديه لو انتظر سلام الإمام قام إلى قضاء ما سبق قبل فراغه. كذا في الوجيز للكردري ولو قام في غيرها بعد قدر التشهد صح ويكره تحريما كذا في فتح القدير والبحر الرائق وإن قام قبل أن يقعد قدر التشهد لم يجز."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل السابع في المسبوق واللاحق، ج:1، ص:91، ط: دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں