ہمارے امام عرصہ 35 سال مسجد میں بحیثت امام و خطیب کی خدمت انجام دیتے ہوۓ پچھلے ہفتہ ان کا انتقال ہوا. کچھ معاملات پر شرعی راۓ درکار ہے؟
1۔ ان کی رہائش مسجد ہذا میں ہی تھی، اب ان کی اہلیہ عدت پوری ہونے تک یا اگلے چھ ماہ تک مزید بااجازت انتظامیہ مسجد میں رہ سکتی ہیں؟
2۔ کیا مسجد انتظامیہ اس دورانیہ میں امام مرحوم کی تنخواہ جاری رکھ سکتی ہے؟
3۔آیا یہ تنخواہ مرحوم کی اہلیہ کو ہی دی جاۓ گی؟ مرحوم کا ایک بیٹا ساتھ رہائش پزیر ہے، دوسرا الگ رہتا ہے، سب یہی دو اولاد ہے۔
4۔ امام پر مسجد ہذا کے کچھ بقایاجات بامد بجلی بل کے ہیں، کیا انتظامیہ وہ بقایاجات مرحوم کو معاف کر سکتی ہے؟
5۔ کیا مسجد انتظامیہ امام مرحوم کی اہلیہ کو بوقتِ رخصت امام مرحوم کی خدمت کے عوض کچھ رقم بطور عزازیہ دے سکتی ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں اگر مسجد انتظامیہ کا امام کے انتقال کی صورت میں رہائش اور مشاہرہ کےجاری رکھنے کے حوالے سے پہلے سے کوئی ضابطہ طے ہے تو طے شدہ ضابطے کے مطابق رہائش اور مشاہرہ جاری رکھا جاسکتا ہے۔لیکن اگر کوئی ضابطہ پہلےسے طے نہیں تو اس صورت میں عدت پوری ہونے تک امام مرحوم کی اہلیہ مسجد کے گھر میں رہ سکتی ہے ،عدت پوری ہوجانے کے بعد چوں کہ گھر مسجد کی جگہ ہے اور بیوہ کی یا امام مرحوم کی اولاد میں سے کسی کی مسجد میں کوئی ذمہ داری نہیں ہے؛ اس ليے گھر خالی کرکے مسجد کے مصالح میں استعمال کرنا چاہیے ،البتہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے کچھ دن مزید رہائش برقرار رکھنے کی ضرورت ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ مرحوم امام کی اولاد یں سے کسی کو مسجد کی کوئی ذمہ داری دے دی جائے ؛تاکہ وہ گھر مسجد کے مصالح میں استعمال ہو،یا پھر گھر کا کرایہ مقرر کرلیا جائے اور وہ کرایہ مسجد کے فنڈ میں جمع ہو ، نمازی حضرات مسجد کے فنڈ سے ہٹ کر ان کے ساتھ کرایہ کی مد میں تعاون کرلیں ۔
2۔تنخواہ چوں کہ مسجد کے فنڈ (جو کہ وقف مال ہوتا ہے)سے امام کی خدمت کے عوض دی جاتی ہے اور اب وہ خدمت باقی نہیں رہی ؛ اس ليے مسجد کے فنڈ سے تنخواہ دینا شرعا درست نہیں ،اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ مسجد کے فنڈ سے ہٹ کر اہل خیر کو متوجہ کرکے کوئی ترتیب بنا لی جائے، مسجد فنڈ کا استعمال نہ کیا جائے ۔
3۔مسجد انتظامیہ اپنی صواب دید پر یہ فیصلہ کرسکتی ہے۔
4،5۔اس کے ليے بھی مسجد فنڈ کے علاوہ سے ترتیب بنانی چاہیے جیساکہ نمبر 2 کے تحت گزرا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و أمّا حكمها فوجوب الحفظ على المودع و صيرورة المال أمانة في يده و وجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني. الوديعة لاتودع و لاتعار و لاتؤاجر و لاترهن، و إن فعل شيئًا منها ضمن، كذا في البحر الرائق."
(كتاب الوديعة، الباب الأول في تفسير الإيداع الوديعة وركنها وشرائطها وحكمها، ج: 4، صفحہ: 337، ط: دار الفکر)
فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:
"رجل جمع مالاً من الناس لينفقه في بناء المسجد، فأنفق من تلك الدراهم في حاجة نفسه، ثم ردّ بدلها في نفقة المسجد لايسعه أن يفعل ذلك، فإن فعل فإن عرف صاحب ذلك ردّ عليه أو سأله تجديد الإذن فيه."
(کتاب الوقف، الفصل الرابع و العشرون في الأوقاف ... الخ، ج:5، صفحه: 879، ط: ادارۃ القرآن)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308102074
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن