بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا واجب چھوٹنے کے باوجود قصداً سجدہ سہو نہ کرنے کا حکم، نماز میں فرض اور واجب چھوٹنے کے حکم میں فرق


سوال

میں نے ایک مرتبہ وتر کی نماز پڑھائی اور اس میں مجھ پر سجدہ سہو واجب ہو گیا اور میں نے عمدا سجدہ سہو نہیں کیا اور چوں کہ سجدہ سہو ادا نہ کرنے کی صورت میں نماز واجب الاعادہ ہوتی ہے، لیکن اس وقت وہ نماز نہیں دہرائی گئی، البتہ میں نے بعد میں نے اعلان کیا کہ فلاں دن کی وتر کی نماز دہر الیں، مگر اس وقت کچھ مقتدی حاضر تھے اور کچھ حاضر نہ تھے، اب جو حاضر نہ تھے ان کی طرف سے میں اس وتر کی نماز کا فدیہ ادا کر سکتا ہوں؟ اور دوسری بات جو لوگ اعلان کے بعد بھی ادا نہ کریں تو ان کا گناہ مجھ پر ہوگا یا نہیں ؟ اور تیسری بات یہ ہے کہ نماز میں جب واجب چھوٹ جائے اور سجدہ سہو بھی نہ کرے تو وہ نماز واجب الاعادہ ہے اور جب فرض چھوٹ جائے تب بھی نماز نہیں ہوتی اور دوبارہ نماز پڑھنی پڑھتی ہے، دونوں میں فرق کیا ہے ؟ کیوں کہ نماز تو دونوں صورتوں میں پڑھنی ہے ۔

جواب

اگر امام پر کسی وجہ سے نماز میں سجدہ سہو واجب ہوجائے تو امام کے ساتھ ساتھ تمام مقتدیوں پر بھی سجدہ سہو واجب ہوجاتا ہے البتہ جو مقتدی مسبوق ہوں وہ امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام پھیرے بغیر صرف سجدہ سہو کریں گے، ایسی صورت میں اگر امام نے سجدہ سہو نہ کیا تو نماز کے فرائض ادا ہوجانے کی وجہ سے اگرچہ نماز تو ادا ہوجائے گی، لیکن نماز میں نقص آجانے کی وجہ سے یہ ناقص نماز   وقت کے اندر  واجب الاعادہ ہوگی، البتہ اگر اس نماز کا  وقت گزر گیا تو اعادہ واجب نہیں ہوگا، تاہم بہتر ہوگا۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر وتر کی نماز پڑھاتے ہوئے کسی واجب کے چھوٹنے کی وجہ سے آپ پر سجدہ سہو واجب ہوا تھا تو آپ پر سجدہ سہو کرنا لازم تھا، لیکن سجدہ سہو نہ کرنے کی وجہ سے اگرچہ وتر کی نماز فرائض مکمل ہونے کی وجہ سے ادا تو ہوگئی تھی لیکن ترکِ واجب کی وجہ سے ناقص رہ گئی تھی، اس لیے آپ پر اور تمام مقتدیوں پر اس نماز کو لوٹانا واجب تھا، چناں چہ آپ کو چاہیے تھا کہ سلام کے بعد یاد آتے ہی وتر کی نماز دوبارہ پڑھادیتے یا کم از کم اعادہ کرنے کا اعلان کردیتے تاکہ ہر ایک مقتدی اپنی وتر کی نماز وقت کے اندر ہی دہرالیتا، بہرحال وقت گزرجانے کے بعد وہ نماز واجب الاعادہ نہ رہی، البتہ اگر کوئی اعادہ کرلے تو بہتر ہے، لازم نہیں ہے۔

آپ کے اعلان کرنے کے بعد اگر کوئی شخص اپنی نماز نہیں دہراتا تو اس کا گناہ آپ پر نہیں ہوگا، جن لوگوں تک یہ اطلاع نہیں پہنچی ان کی طرف سے نماز کا فدیہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، البتہ علم ہونے کے باوجود قصداً سجدہ سہو نہ کرنے اور بروقت اعلان نہ کرنے کی وجہ سے آپ گناہ گار ہوئے ہیں اس لیے آپ پر سچے دل سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔

واجب اور فرض کے چھوٹنے میں فرق یہ ہے کہ واجب کے چھوٹنے کی صورت میں فرائض کے ادا ہونے کی وجہ سے نماز تو ادا ہوجاتی ہے، البتہ واجب کے چھوٹنے کی وجہ سے نماز ناقص رہ جاتی ہے، اس لیے اس نقص کو ختم کرنے کے لیے سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اور سجدہ سہو نہ کرنے کی صورت میں نقص ختم کرنے کے لیے وقت کے اندر اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے بعد اعادہ واجب نہیں رہتا، البتہ مستحب ہوتا ہے، جب کہ نماز کے فرائض (قیام، قرات، رکوع، سجدہ، قعدہ اخیرہ) میں سے اگر کوئی فرض چھوٹ جائے تو سِرے سے نماز ہی ادا نہیں ہوتی، اس لیے نماز میں فرض چھوٹنے کی صورت میں سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز ادا نہیں ہوتی، بلکہ فرض چھوٹنے کی صورت میں مطلقاً اس نماز کو دوبارہ پڑھنا لازم ہوتا ہے، اگر کوئی وقت کے اندر اعادہ نہ کرے تو وقت ختم ہوتے ہی وہ نماز قضا شمار ہوتی ہے اور اس فرض نماز کی قضا پڑھنا فرض اور واجب نماز کی قضا پڑھنا واجب ہوتا ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"سهو الإمام يوجب عليه وعلى من خلفه السجود، كذا في المحيط، ولا يشترط أن يكون مقتديا به وقت السهو حتى لو أدرك الإمام بعد ما سها يلزمه أن يسجد مع الإمام تبعا له ."

(کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر، فصل سهو الإمام... ج : 1، ص: 128، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(والمسبوق يسجد مع إمامه مطلقا)سواء كان السهو قبل الاقتداء أو بعده.

"(قوله والمسبوق يسجد مع إمامه) قيد بالسجود لأنه لا يتابعه في السلام، بل يسجد معه ويتشهد فإذا سلم الإمام قام إلى القضاء."

(كتاب الصلاة،باب سجود السهو، ج:2 ،ص:82،ط:سعید)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(من فرائضها) التي لا تصح بدونها.

(قوله التي لا تصح بدونها) صفة كاشفة إذ لا شيء من الفروض ما تصح الصلاة بدونه بلا عذر."

(كتاب الصلاة،باب سجود السهو، ج:1 ،ص:442،ط:سعید)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(ولها واجبات) لا تفسد بتركها وتعاد وجوبا في العمد والسهو إن لم يسجد له، وإن لم يعدها يكون فاسقا آثما وكذا كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تجب إعادتها. والمختار أنه جابر للأول،لأن الفرض لا يتكرر.

(قوله إن لم يسجد له) أي للسهو، وهذا قيد لقوله والسهو، إذ لا سجود في العمد ... وهل تجب الإعادة بترك سجود السهو لعذر، كما لو نسيه أو طلعت الشمس في الفجر؟ لم أره فليراجع والذي يظهر الوجوب كما هو مقتضى إطلاق الشارح لأن النقصان لم ينجبر بجابر، وإن لم يأثم بتركه فليتأمل ... (قوله وكذا كل صلاة إلخ) الظاهر أنه يشمل نحو مدافعة الأخبثين مما لم يوجب سجودا أصلا، وأن النقص إذا دخل في صلاة الإمام ولم يجبر وجبت الإعادة على المقتدي أيضا وأنه يستثنى منه الجمعة والعيد إذا أديت مع كراهة التحريم إلا إذا أعادها الإمام والقوم جميعا فليراجع ح ... قيد في البحر في باب قضاء الفوائت وجوب الإعادة في أداء الصلاة مع كراهة التحريم بما قبل خروج الوقت، أما بعده فتستحب، وسيأتي الكلام فيه هناك إن شاء الله تعالى مع بيان الاختلاف في وجوب الإعادة وعدمه، وترجيح القول بالوجوب في الوقت وبعده (قوله والمختار أنه) أي الفعل الثاني جابر للأول بمنزلة الجبر بسجود السهو وبالأول يخرج عن العهدة وإن كان على وجه الكراهة على الأصح، كذا في شرح الأكمل على أصول البزدوي، ومقابله ما نقلوه عن أبي اليسر من أن الفرض هو الثاني واختار ابن الهمام الأول قال لأن الفرض لا يتكرر، وجعله الثاني يقتضي عدم سقوطه بالأول إذ هو لازم ترك الركن لا الواجب إلا أن يقال المراد أن ذلك امتنان من الله تعالى إذ يحتسب الكامل وإن تأخر عن الفرض لما علم سبحانه أنه سيوقعه اهـ يعني أن القول بكون الفرض هو الثاني يلزم عليه تكرار الفرض لأن كون الفرض هو الثاني دون الأول يلزم منه عدم سقوطه بالأول. وليس كذلك لأن عدم سقوطه بالأول إنما يكون بترك فرض لا بترك واجب، وحيث استكمل الأول فرائضه لا شك في كونه مجزئا في الحكم وسقوط الفرض به وإن كان ناقصا بترك الواجب، فإذا كان الثاني فرضا يلزم منه تكرار الفرض، إلا أن يقال إلخ فافهم."

(كتاب الصلاة،باب سجود السهو، ج:1 ،ص:456،ط:سعید)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے :

"كل ‌صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد أي وجوبا في الوقت وأما بعده فندبا."

(کتاب الصلاۃ، باب قضاء الفوائت،ص:440، ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں