امام کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا کرے؟
اگر نماز کے دوران امام صاحب کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ وضو کے لیے جانے سے پہلے کسی بھی مقتدی کو اپنی جگہ امام بناکر جاسکتے ہیں؛ تاکہ وہ مقتدی امام بن کر لوگوں کی نماز پوری کروادے، استخلاف (نائب بنانے) کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی امام صاحب کا وضو ٹوٹ جائے اسی وقت ، اپنے پیچھے موجود کسی مقتدی کو (جس کے بارے میں گمان ہو کہ اسے نماز کے فرائض، واجبات اور سنتوں کا علم دوسروں سے زیادہ ہوگا) بات کیے بغیر اشارہ کر کے یا کھینچ کر آگے اپنی جگہ پر کھڑا کردے اور خود وضو کرنے چلا جائے، اور وہ نائب اسی جگہ سے نماز کو آگے بڑھائے جہاں سے امام صاحب چھوڑ کر گئے تھے، اگر امام صاحب کا وضو رکوع یا سجود کے دوران ٹوٹا ہو تو نائب کو وہ رکوع یا سجدہ بھی کرنا پڑے گا، لیکن امام صاحب بات کیے بغیر اشارہ سے نائب کو بتائیں گے کہ رکوع یا سجدہ باقی ہے، مثلاً رکوع کے لیے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرنا چاہیے اور سجدہ کے لیے اپنے ماتھے (پیشانی) پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرنا چاہیے، اسی طرح اگر قرأت کی فرض یا واجب مقدار پوری نہ ہوئی ہو تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرنا چاہیے، سجدہ تلاوت کے لیے منہ اور پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرے، سجدہ سہو کے لیے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کرے، یہ اشارے ضرورت کے تحت ہی کرنا چاہییں، ورنہ اگر نائب کو ان میں سے کسی بات کا خود سے اندازا ہو تو پھر اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور اگر امام کو اندازا ہو کہ مقتدیوں میں سے کسی کو استخلاف اور امامت کے مسائل معلوم نہیں ہیں، تو امام پر نماز کے درمیان نائب بنانا ضروری نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں امام لوگوں کو مطلع کردے کہ مجھے وضو کی حاجت پیش آگئی ہے، اور پھر اپنی جگہ کسی شخص کو از سرِ نو نماز پڑھانے کا کہہ دے، یا لوگ انتظار کرلیں اور امام وضو کرکے خود نماز پڑھادے۔
الاختيار لتعليل المختار ميں هے:
"(وإن كان إماما استخلف) لقوله عليه الصلاة والسلام: «أيما إمام سبقه الحدث في الصلاة فلينصرف ولينظر رجلا لم يسبق بشيء فليقدمه ليصلي بالناس» ، وإنما يجوز البناء إذا فعل ما لا بد منه كالمشي والاغتراف حتى لو استقى أو خرز دلوه، أو وصل إلى نهر فجاوزه إلى غيره فسدت صلاته."
(كتاب الصلاة، حكم من سبقه الحدث وهو في الصلاة، ج:1، ص:63، ط:مطبعة الحلبي)
فتاوي شامي ميں هے:
"(استخلف) أي جاز له ذلك ولو في جنازة بإشارة أو جر لمحراب، ولو لمسبوق، ويشير بأصبع لبقاء ركعة، وبأصبعين لركعتين ويضع يده على ركبته لترك ركوع، وعلى جبهته لسجود، وعلى فمه لقراءة، وعلى جبهته ولسانه لسجود تلاوة أو صدره لسهو (ما لم يجاوز الصفوف لو في الصحراء) ما لم يتقدم، فحده السترة أو موضع السجود على المعتمد كالمنفرد (وما لم يخرج من المسجد) أو الجبانة أو الدار (لو كان يصلي فيه)
(قوله: ويشير إلخ) هذا إذا لم يعلم الخليفة، أما إذا علم فلا حاجة إلى ذلك، بحر (قوله: لسجود) أي لترك سجود، وكذا ما بعده، من المعطوف ح".
(كتاب الصلاة، باب الاستخلاف، ج:1، ص:601، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144612100790
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن