بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا تلاوت کے دوران آیت کے درمیان میں وقف کرنا


سوال

ہماری مسجد کے امام صاحب کو اللہ تعالی نے خوب صورت اور پرسوز آواز سے تلاوت کرنے سے نوازا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ رموز و اوقاف کا خیال نہیں رکھتے اور آیات کے درمیان جہاں مرضی آئے وقف کرتے ہیں اور پھر آگے سے شروع کر دیتے ہیں، مثلًا: سورۂ نصر میں "یَدْخُلُوْنَ" پر وقف کرتے ہیں، اسی طرح سورۂ مؤمنون میں "عَبَثًا" ، "اِلٰهًا آخَرَ" اور "لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ" پر وقف کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان کو اس بارے میں کافی توجہ بھی دلائی گئی ہے، مگر وہ اس پر دھیان نہیں دے رہے ہیں۔ آپ سے سوال ہے کہ ان کا یہ عمل شرعًا کیسا ہے اور کیا ان کے پیچھے نماز ہو جاتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن کی تلاوت کے دوران ایسی جگہ وقف کرنا جہاں وقف کرنے سے معنی بالکل بدل جاتے ہوں اور ایسے معنی بن جاتے ہوں جن کا عقیدہ رکھنا درست نہیں، اور پھر پیچھے سے ملاکر نہ پڑھنا یہ ایسی غلطی ہے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اور اگر معنی میں اتنی زیادہ تبدیلی نہیں ہوتی تو نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن چوں کہ مفہوم میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آجاتی ہے؛ لہذا اس طرح تلاوت کرنا مکروہ ہوگا۔ اور اگر تلاوت کرنے والا قران کے معانی کو سمجھتا ہو اور اسے معلوم ہو کہ آیت کے درمیان وقف کرنے میں معنی میں کوئی خرابی نہیں آرہی اور وہ آیت کے درمیان وقف کر لیتا ہے تو اس طرح وقف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

باقی آپ نے سوال میں جو مثالیں ذکر کی ہیں ان میں سے کسی سے بھی نماز فاسد نہیں ہوتی۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلك: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین".

(إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200643

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں