بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا تکبیرات انتہائی آہستہ کہنا


سوال

امام کا تکبیرِ تحریمہ آہستہ کہنا کیسا ہے؟ اسی طرح تکبیراتِ انتقال آہستہ کہے اور مقتدی امام کی حرکت کے ذریعہ سے منتقل ہوتے ہیں، تو  کیا سجدہ سہو واجب ہوگا؟

جواب

امام کو باجماعت نماز میں تکبیر تحریمہ اور دیگر تکبیرات اتنی بلندآواز سے کہنا سنت ہے کہ مقتدی سن سکیں۔ تکبیرات کا حد سے زیادہ بلند واز سے کہنا یا حد سے زیادہ ہلکی آواز سے کہنا دونوں سنت کے خلاف ہیں، اس لیے عادت اور ضرورت کے مطابق آواز رکھنی چاہیے۔

اگر امام کی آواز اتنی پست ہے کہ تمام نمازی ان کی آواز نہیں سن سکتے، یا مسجد بڑی ہے اور پچھلی صفوں والے یا دور کھڑے نمازی ان کی آواز نہیں سن سکتے، البتہ پہلی صف کے نمازی یا جن صفوں تک ان کی آواز جاتی ہے، وہ نمازی ان کی آواز سن لیتے ہیں اور باقی نمازی امام کی حرکت کے ذریعہ اقتدا کرتے ہیں تو نماز ہوجائے گی، سجدہ سہو لازم نہیں۔  یا تو امام کو بآواز بلند تکبیرات اور قراءت کرنی چاہیے ورنہ اسپیکر کا انتظام کرنا چاہیے۔(نماز کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، 1/62.63بیت العمار-1/164)

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 532):

"فصل (ويجهر الإمام)  وجوبًا بحسب الجماعة، فإن زاد عليه أساء، ولو ائتم به بعد الفاتحة أو بعضها سرًّا أعادها جهرًا، بحر، لكن في آخر شرح المنية ائتم به بعد الفاتحة يجهر بالسورة إن قصد الإمامة وإلا فلايلزمه الجهر". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں