بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا سامع کو غلطیاں بتانے سے روکنا


سوال

ہمارے  محلے کی مسجد میں امام صاحب ہی نماز تراویح پڑھاتے ہیں اور ان کے پیچھے جو سامع ہوتا ہے اس کو امام صاحب کی طرف سے لقمہ دینے یعنی غلطی بتانے کی اجازت نہیں ہے، امام صاحب کی اکثر غلطیاں آتی ہیں، مگر سامع کو نماز میں بتانے کی اجازت نہیں ہے، بعض دفعہ تو امام صاحب اگلے روز اپنی غلطی درست کر لیتے ہیں، لیکن اکثر اوقات وہ غلطی درست نہیں کرتے اور اگر پیچھے سے کوئی لقمہ دے دے تو  امام صاحب ناراض اور غصہ ہوجاتے ہیں، اس صورت میں تو قرآن پاک ناقص رہ گیا تو اس صورت میں مقتدیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ کیوں کہ ان کا قرآن پاک تو ناقص رہ گیا ہے، مذکورہ صورت میں آیا مقتدیوں کا قرآن پاک کامل ہوگا یا ناقص؟ اور مذکورہ بالا صورت میں مقتدیوں کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ امام صاحب کا سامع کے غلطی بتانے پر ناراضی کا اظہار کرنا اور غصہ ہونا ا اور اس کو غلطی بتانے سے روکنا شرعاً درست نہیں، سامع کے رکھنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ نماز میں ہی غلطی کا تدارک ہوجائے، بعض اوقات ایسی غلطی بھی ہوجاتی ہے جس سے معنی میں بگاڑ آجاتا ہے اور اس صورت میں اگر اسی رکعت میں اصلاح نہ ہو تو نماز ہی فاسد ہوجاتی ہے؛ اس لیے اس معاملے میں کسی  کو  شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے،  غلطی ہوجانا فطری امر ہے، اس میں کوئی عار کی بات نہیں۔ البتہ سماعت کے آداب میں سے ہے کہ فوراً غلطی نہ بتائی جائے، بلکہ قاری اگر خود غلطی کی اصلاح کر رہاہے یا خود پچھلی آیت سے دہرا رہاہے تو اسے موقع دیا جائے، اگر اسے غلطی کا احساس ہی نہ ہو، یا وہ کوشش کے باوجود غلطی درست نہ کرپائے تو پھر غلطی بتادینی چاہیے۔

اگر تکمیلِ قرآنِ کریم سے پہلے ان غلطیوں کی اصلاح کرکے وہ آیات دوبارہ نہیں پڑھی گئیں تو ختمِ قرآن میں نقص رہے گا، اور اگر خدانخواستہ ایسی غلطی رہ گئی جس سے نماز فاسد ہوئی ہو تو ان دو رکعت میں تلاوت کی گئی مقدار کے برابر نقص رہ جائے گا، اس لیے مسجد  کی انتظامیہ یا کسی ایسے معتبر شخص کو حکمت کے ساتھ امام صاحب کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے جن کی بات امام صاحب قبول کرلیں، اگر پھر بھی یہ رویہ برقرار رہتا ہے تو تراویح کے لیے کسی اور قاری کا انتظام کرلیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202827

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں