امام رکوع یا سجدے میں جاتے ہوئے یا اٹھتے ہوئے اللّٰه اکبر اور سمع اللّٰه لمن حمدہ کو اتنا طول دے کہ مقتدی اس سے پہلے یہ عمل مکمل کرلے تو امام اور مقتدی کے لیے کیا حکم ہے؟
امام کو چاہیے کہ رکوع و سجدہ میں جاتے وقت اور سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیر شروع کرے اور رکوع و سجدہ میں پہنچنے تک اور سجدہ سے مکمل طور پر اٹھنے تک تکبیر مکمل کرلے، اسی طرح رکوع سے اٹھتے وقت ’’سمع الله لمن حمدہ‘‘ کہنا شروع کرے اور سیدھا کھڑے ہونے تک مکمل کرلے، اور مقتدی کو چاہیے کہ وہ ان سب اعمال اور تکبیر وغیرہ کہنے میں امام سے سبقت نہ کرے، اگر امام تکبیر اور تسمیع (سمع الله لمن حمدہ کہنے) کو زیادہ طول دے دے جس کی وجہ سے مقتدی کی تکبیر امام کی تکبیر کے بعد شروع ہونے کے باوجود امام کی تکبیر سے پہلے ختم ہوجائے تو اس امام و مقتدی کی نماز میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، البتہ امام کا اس طرح تکبیرات کو طول دینا سنت کی خلاف ورزی ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 493):
(ثم) كما فرغ (يكبر) مع الانحطاط (للركوع)
(قوله: مع الانحطاط) أفاد أن السنة كون ابتداء التكبير عند الخرور وانتهائه عند استواء الظهر، وقيل: إنه يكبر قائمًا، والأول هو الصحيح، كما في المضمرات وتمامه في القهستاني.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 496):
(ثم يرفع رأسه من ركوعه مسمعًا)
(قوله: مسمعًا) أي قائلًا سمع الله لمن حمده.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 497):
(ثم يكبر) مع الخرور (ويسجد)
(قوله: مع الخرور) بأن يكون ابتداء التكبير عند ابتداء الخرور وانتهاؤه عند انتهائه شرح المنية.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 505):
(ثم يرفع رأسه مكبرًا.
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144201201216
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن