بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 ذو الحجة 1446ھ 12 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

امام کا قعدہ اولیٰ میں دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے مقتدی کا لقمہ دینے کا حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ امام صاحب قعدۂ اولیٰ میں بہت دیر تک بیٹھے رہےایک صاحب مقتدیوں میں سے نے لقمہ دےدیاامام صاحب نے لقمہ لے بھی لیا بعد نماز ایک مولوی صاحب نے کہا لقمہ دینے والے کی نماز نہیں ہوئی کیا مسئلہ یہی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ مقتدی کے لیے امام کو لقمہ دینے (غلطی بتانے)  میں جلدی کرنا مکروہ ہے ، اسی طرح امام کے لیے مقتدی کی راہ نمائی اور لقمہ کا انتظار کرنا بھی مکروہ ہے،  مقتدیوں کو چاہیے کہ جب تک لقمہ دینے کی شدید ضرورت نہ ہو امام کو لقمہ نہ دیا کریں۔لہذا صورت مسئولہ میں جب امام صاحب بہت دیر تک قعدہ میں بیٹھے رہے تو مقتدی یہی سمجھے کہ امام صاحب بھول گئے ہیں ، اسی کو قعدہ اخیرہ سمجھ رہے ہیں تو اس صورت میں   مقتدی کا امام کو لقمہ دینا اور امام کا لقمہ قبول کرنا درست تھا، اس سے کسی کی نماز فاسد نہیں ہوئی ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ويكره للمقتدي أن يفتح على إمامه من ساعته لجواز أن يتذكر من ساعته فيصير قارئا خلف الإمام من غير حاجة. كذا في محيط السرخسي ولا ينبغي للإمام أن يلجئهم إلى الفتح؛ لأنه يلجئهم إلى القراءة خلفه وإنه مكروه بل يركع إن قرأ قدر ما تجوز به الصلاة وإلا ينتقل إلى آية أخرى. كذا في الكافي وتفسير الإلجاء أن يردد الآية أو يقف ساكتا. كذا في النهاية."

(کتاب الصلاۃ،الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیها جلد 1 ص: 99 ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں