بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام صاحب کا میت کے لیے دعا کروانا


سوال

 اگر کوئی وفات پا جائے تو اس کے ایصالِ ثواب کے لیے امامِ مسجد کا جمعہ یا کسی بھی نماز کے بعد یہ علان کرنا درست ہے کہ تمام حضرات 1 دفعہ سورۃالفاتحہ اور 3 دفعہ سورۃ اخلاص پڑھ لیں، پھر میت کے لیے مغفرت کی دعا کرواناکیا احناف دیو بند کے مسلک میں اس کی اجازت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار نفل نماز، روزہ، طواف، عمرہ و حج، قربانی، نیز غرباء ومساکین پر صدقہ خیرات کرکے مرحومین کو جو ثواب پہنچایا جاتاہے، یہ شرعاً درست ہے،  اور  مرحومین تک نہ صرف  اس کا  ثواب پہنچتاہے،  بلکہ  پڑھنے والوں یا صدقہ کرنے والوں کو بھی برابر ثواب ملتا ہے، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے،صحیح بخاری میں ہے کہ : نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے چچا ابو عامر کو اوطاس کی جانب بھیجے جانے والا لشکر کا امیر بنایا، جنگ میں وہ زخمی ہوئے، انہوں نے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کہا کہ : نبی کریم ﷺ کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا کہ میرے لیے دعائے مغفرت کریں، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہیں چچا کا واقعہ بتایا، نبی کریم ﷺ نے پانی منگوایا، وضو فرمایا اور ہاتھ اٹھا کر فرمایا: اے اللہ عبید ابو عامر کی مغفرت فرمادیجیے، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اتنے بلند فرمائے کہ مجھے آپ ﷺ کے بغلوں کی سفیدی دکھائی دی، اس کے بعد آپ ﷺ نے مزید یہ دعا مانگی : اے اللہ ابو عامر کو قیامت والے دن اپنے بہت سے بندوں پر فوقیت اور فضیلت عطا فرما۔ یہی اہل سنت و الجماعت  کا مسلک ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  امام صاحب کا نماز کے بعد کسی کی وفات پر سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الاخلاص  پڑھ میت کے لیے  ہاتھ اٹھا کر  ایصال ثواب ومغفرت   کی دعا کروانا جائز ہے ۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن أبي موسى، رضي الله عنه، قال: لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين بعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس .. قال: يا ابن أخي أقرئ النبي صلى الله عليه وسلم السلام و قل له: استغفر لي واستخلفني أبو عامر على الناس فمكث يسيراً، ثم مات فرجعت فدخلت على النبي صلى الله عليه وسلم في بيته على سرير مرمل، وعليه فراش قد أثر رمال السرير بظهره وجنبيه، فأخبرته بخبرنا وخبر أبي عامر، وقال: قل له: استغفر لي، فدعا بماء فتوضأ ثم رفع يديه، فقال: اللهم اغفر لعبيد أبي عامر، ورأيت بياض إبطيه، ثم قال: اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس".

 (صحيح البخاري، كتاب المغازي، باب غزوة أوطاس 5 /197 ط: دار الشعب)

حدیث شریف میں ہے :

"عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله ﷺ من حج عن والدیه بعد وفاتهما کتب له عتقاً من النار، وکان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غیر أن ینقص من أجور هما شیئاً".

( شعب الإیمان ، 6/ 204، رقم: 7912،  دارالکتب العلمیة)

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إذا تصدق بصدقة تطوعاً أن یجعلها عن أبویه فیکون لهما أجرها، ولاینتقص من أجره شیئاً". رواه الطبراني في الأوسط. وفیه خارجة بن مصعب الضبي وهو ضعیف".

( باب الصدقة علی المیت، 3 / 138، 139، رقم: 4769، دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذکراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة". 

( البحرالرائق، کتاب الحج، باب الحج عن الغیر،3/ 59، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144312100798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں