بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا مقتدی کو نماز پڑھانے سے روکنے کی ایک صورت


سوال

‎ میرا سوال یہ ہے کہ امام صاحب مسجد میں نماز پڑھانےکیلیے پانچ سات منٹ دیر سےآۓ،اسی دوران ایک مقتدی مصلے پر نمازپڑھانےکیلیے کھڑاہوا اوردوسرےمقتدی نے اقامت کہنا شروع کی کہ امام صاحب آگئے، اور ان کو آکر روک دیا پھر امام صاحب نے سنتیں پڑھی اور پھر نماز پڑھادی ۔اب ایک مقتدی کاکہنا ہے کہ جب اقامت شروع گئی تھی تو امام صاحب کااس کو روکنا ٹھیک عمل نہیں تھا اور وہ کہتاہے کہ میں نے حدیث مبارکہ سنی ہے جس میں اس طرح کرنےسےروکاگیا اور امام صاحب کہتےہیں کہ جب میں آگیا تو مقتدی حضرات کو خود رک جاناچاہیے اب کس کی بات صحیح ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ  امام صاحب اگر اکثر تاخیر سے  آتے  ہوں  تو ان کو  چاہئے کہ وقت کی پابندی کا اہتمام فرمائیں، اس لئے کہ موجودہ زمانے میں  لوگ ایک طرف دینی مشاغل  میں بہت زیادہ مصروف ہیں، دوسری طرف دین سے غفلت اور لاپرواہی بھی ہے، اگر مقرر وقت پر جماعت کھڑی نہیں کی جائے گی تو لوگ جماعت سے دور ہونے لگیں گے،اس لئے متعینہ وقت پر جماعت کھڑی کرنے کا اہتمام کرنا اور اس کی پابندی کرنا بے انتہا ضروری ہے، تاکہ جماعت میں لوگ کم نہ ہو جائیں۔ ایسےامام صاحب جو تاخیر سے آنے کے عادی ہوں  انہیں نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی جائے، اگر سمجھ جائیں اور وقت کی پابندی کریں تو بہتر ہے ورنہ ان کو عزت کے ساتھ  معزول کرنے کی اجازت ہوگی، لیکن بدزبانی اور غیبت کی ہر گز اجازت نہیں ہوگی۔(مستفاد: نماز کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، ج۴، ص۳۴۷)

نیز یہ بھی واضح رہے کہ اگر کبھی نماز کا وقت ہونے پر   امام صاحب نہ پہنچے ہوں ،تو اگر امام صاحب وہیں موجود ہوں یعنی وضو وغیرہ میں مصروف ہو ں  یاحجرے میں ہوں تو  ان کا انتظار کرنا چاہیے۔ اگر امام صاحب موجود ہی نہ ہوں یا ان کے نہ آنے کا یقین ہو تو بلاتاخیر جماعت کھڑی کرلی جائے، اور  اگر آنے کا یقین ہے تو انتظار کرلیا جائے، اور اگرکچھ معلوم نہ ہو تو دوچار منٹ انتظارکرکے جماعت کھڑی کرلی جائے۔   اگر امام سے کبھی کبھی معمولی تاخیر ہوجائے  تو  امام کی اس تاخیر کو کسی عذر پر محمول کر کے تحمل سے کام لینا چاہئے۔

بہرحال  صورت مسئولہ میں اگر امام مسجد نے فساد کو دور کرنے کیلئے یا کسی شرعی مصلحت کی بناء پر مذکورہ شخص کو امامت سے روکا تھا، تو ان کا ایسا کرنا درست ہے، اور مقتدی کو امام صاحب کی رعایت کرنی چاہئے، جب وہ آگئے تھے، تو ان کی اجازت کے بغیر نماز نہ پڑھائیں، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی شخص کی جگہ اس کی اجازت کے بغیر نماز پڑھانے سے منع فرمایا ہے۔

نیز اگر پہلی مرتبہ اقامت مکمل نہیں کی گئی تھی، تو  امام صاحب کے جماعت کراتے وقت  مکمل اقامت کہی جانی چاہئے تھی۔ اس صورت میں اگر امام صاحب کے جماعت کراتے  وقت بھی اقامت نہیں کہی گئی تو یہ مکروہ   ہوا، البتہ نماز ادا ہوگئی۔

نیز مذکورہ مقتدی کس حدیث کی بناء  پر  استدلال کر رہے ہیں سوال میں اس کی وضاحت نہیں کی گئی، لہٰذا اس کے بارے میں کوئی حکم ذکر نہیں کیا جاسکتا، حدیث کی وضاحت ہونے کے بعد ہی اس کے متعلق جواب دیا جا سکتا ہے۔

«شرح النووي على مسلم» میں ہے :

"قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‌وَلَا ‌يَؤُمَّنَّ ‌الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي سُلْطَانِهِ مَعْنَاهُ مَا ذَكَرَهُ أَصْحَابُنَا وَغَيْرُهُمْ أَنَّ صَاحِبَ الْبَيْتِ وَالْمَجْلِسِ وَإِمَامَ الْمَسْجِدِ أَحَقُّ مِنْ غَيْرِهِ وَإِنْ كَانَ ذَلِكَ الْغَيْرُ أَفْقَهَ وَأَقْرَأَ وَأَوْرَعَ وَأَفْضَلَ مِنْهُ وَصَاحِبُ الْمَكَانِ أَحَقُّ فَإِنْ شَاءَ تَقَدَّمَ وَإِنْ شَاءَ قَدَّمَ مَنْ يُرِيدُهُ وَإِنْ كَانَ ذَلِكَ الَّذِي يُقَدِّمُهُ مَفْضُولًا بِالنِّسْبَةِ إِلَى بَاقِي الْحَاضِرِينَ لأنه سلطانه فيتصرف فيه كيف شاء قال أَصْحَابُنَا فَإِنْ حَضَرَ السُّلْطَانُ أَوْ نَائِبُهُ قُدِّمَ عَلَى صَاحِبِ الْبَيْتِ وَإِمَامِ الْمَسْجِدِ وَغَيْرِهِمَا لِأَنَّ وِلَايَتَهُ وَسَلْطَنَتَهُ عَامَّةٌ قَالُوا وَيُسْتَحَبُّ لِصَاحِبِ الْبَيْتِ أَنْ يَأْذَنَ لِمَنْ هُوَ أَفْضَلُ مِنْهُ."

(‌‌(5/ 173)،(باب مَنْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ)،‌‌(كتاب المساجد ومواضع الصلاة، ط: الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100329

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں