بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا مؤذن کے علاوہ کسی اور کو نائب امام بنانا / اہلِ محلہ کا مسجد میں کسی عالم سے بیان کروانے پر اصرار کرنا


سوال

ہماری مسجد جامع مسجد گول مارکیٹ ناظم آباد ، کر اچی  کی مرکزی مساجد میں سے ایک ہے ، جو کہ 1974ء سے محکمہ اوقاف حکومت سندھ کے ماتحت ہے، جس میں عرصہ 23 سال سے جامعہ دارالعلوم کر اچی  کے فاضل ، محکمہ اوقاف کیے  طرف سے باضابطہ امام و خطیب مقرر ہیں اور اپنی تمام تر دینی و شر عی  ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں،  جس سے پورا علاقہ الحمد للہ خوب مستفید ہو رہا ہے اور مسجد کا ایک بہترین  ماحول بنانے میں ان کی محنت اور جذبہ  قابل ستائش ہے ۔

دو(2) با تیں جواب طلب ہیں :

(1)۔۔ محکمہ اوقاف کے قانون ( رولز اینڈ ریگولیشن بالخصوص شق نمبر 109) کے تحت ( جس کی کاپی منسلک ہے ) محکمہ اوقاف کا مستقل ملازم ،ہر امام و خطیب اپنی مسجد کا با اختیار پیش امام ہوتا ہے ،خاص طور پرمسجد کے اسپیکر کے استعمال ، نکاح ، بیانات اور دروس و غیرہ کے سلسلہ میں ۔ یہی موقف مسجد کی انتظامیہ کا بھی ہے۔

عام طور پر بالخصوص رمضان میں کچھ لوگ اس بات پر بضد ہو جاتے ہیں کہ امام صاحب کی غیر موجودگی میں صرف مؤذن کو امامت کے لیے  آگے بڑھایا جاۓ ، امام اپنی مرضی سے کسی کو آگے نہ کریں ، اس لیے  کہ  امام کے بعد امامت کا حق صرف مؤذن کا ہے نہ کہ کسی اور کا۔ جبکہ اکثر و بیشتر ظہر کی نماز مؤذن صاحب ہی  پڑھاتے ہیں اور اکثر اوقات جہری نمازوں میں بھی انہی کو آگے کیا جاتا ہے ، تاہم کبھی کبھار ہفتہ دس دن میں  ایک آد ھ  مرتبہ امام صاحب ، مؤذن صاحب کے علاوہ کسی اور کو جو کہ سبعہ  عشرہ کے قاری ہیں ، منتظمہ کمیٹی  کے مشورے اور اجازت سے کسی جہری نماز میں آگے کر دیتے ہیں ، جن  کی  قراءت سے پوری مسجد کے نمازی  الحمد للہ خوش ہیں اور اعلانیہ اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔

واضح رہے کہ مؤذن صاحب محکمہ اوقاف کے ملازم نہیں ، انتظامیہ نے انہیں پرائیویٹ مقرر کر رکھا ہے، امام صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ شرعی طور پر اور  انتظامیہ کی طرف سے جب انہیں یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس کو  مناسب سمجھیں، اسے آگے کر یں تو  مذکورہ   معترضین کے اعتراضات کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا انتظامیہ کمیٹی کی اجازت کے بعد امام کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کبھی کبھار جس کو مناسب سمجھے امامت کے لیے آگے کردیں؟

(2)۔۔ مسجد کے اطراف میں رہنے والے سینکڑوں نمازی جو علماء ہیں اور مختلف دینی مدارس سے فاضل ہیں ، الحمد للہ تمام علماء بہت سکون اور محبت سے مسجد میں جڑتے ہیں اور مسجد کی انتظامیہ کے معاملات میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرتے ، لیکن بعض افراد اس بات پر بضد  ہیں کہ فلاں مخصوص نمازی جو عالم یا مفتی ہیں ، ان کو بھی گاہے بگاہے اسپیکر پر  بیان کرنے کا یا اسپیکر پر نکاح پڑھانے کا موقع دیا جائے ، جب کہ محکمہ کا قانون اس کی اجازت نہیں ویتا( ملاحظہ ہو : رولز اینڈ ریگولیشن بالخصوص شق نمبر 10،9 جس کی کاپی استفتاء کے ساتھ منسلک ہے ) ۔ کیا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے ؟

واضح  رہے کہ پورا سال امام صاحب کے روزانہ دو(2) درس ( درس قرآن،  درس حدیث ) ہوتے  ہیں ، اور رمضان المبارک میں تین درس ( درس قرآن ، درس حدیث ، فقہی مسائل کی نشست ہوتی ہے،اگر بالفرض موصوف کو اجازت دے  دی جاۓ تو دوسرے علماء بھی چاہیں گے کہ ہمیں بھی اسپیکر پر بیان ، نکاح و غیر ہ کرنے کا موقع دیا جاۓ،  ہمارا تعلق بھی فلاں بزرگ یا فلاں جماعت سے ہے ،اس طرح مسجد کا نظم بری طرح متاثر ہو گا اور  مسجد کے اس قسم کے تمام دینی معاملات میں ہر شخص بے جا مداخلت کرے گا، جس سے مسجد میں انتشار و خلفشار پھیلے گا، جو خدانخواستہ کسی فتنہ کا پیش خیمہ نہ ہو ۔ایسے فرد کے بارے میں واضح حکم بتائیں کہ کیا ان کا یہ طرز عمل درست ہے اور کیا یہ دین اور شریعت کے عین مطابق ہے؟

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں  محکمہ اوقاف کی طرف سے مقرر کردہ ، مذکورہ مسجد کا  امام وخطیب  ، امامت کا زیادہ حق دار ہے، اس کی  اجازت کے بغیر کسی اور کے لیے امامت کرنا جائز نہیں ہے ، امام صاحب  اپنی موجودگی   یا غیر موجودگی میں اگر کسی  ایسے شخص کو جو امامت کا اہل ہو ، اپنا نائب بنائیں، جب کہ مسجد کی انتظامیہ  کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہ  ہے  تو وہی امامت کا زیادہ حق دار ہوگا، اہل ِ محلّہ کا امام کے مقرر کردہ  شخص کے علاوہ کسی اور کو امام بنانے پر اصرار کرنا جائز نہیں ہے۔

اور اگر امام کسی کو نائب مقرر نہ کرے تو اس کی غیر موجودگی میں مؤذن صاحب امامت کے زیادہ حق دار ہوں گے،  بالخصوص جب کہ محکمہ اوقاف کے  قانون میں بھی  مؤذن کے فرائض منصبی میں اس کی صراحت ہے کہ

”اور امام کی عدم موجودگی میں امامت کرنا ۔۔۔ الخ“

2: استفتاء کے  ساتھ  منسلکہ   محکمہ اوقاف کے قانون میں جب یہ صراحت کے ساتھ موجود ہے  کہ :

”مسجد میں نماز ِ جمعہ، عیدین، نماز جنازہ، نکاح اور مذہبی اجتماعات سے خطاب صرف امامِ مسجد کا اختیار ہے، مسجد میں کسی اور مذہبی ،سیاسی وسماجی تقریر واعلان کی ممانعت ہے۔۔الخ“

اور مسجد انتظامیہ نے بھی  اس سلسلہ میں امامِ مسجد کو   بااختیار بنایا ہے، اور  امام صاحب بھی اہل محلہ کی دینی ضرورت کے  رعایت رکھتے ہوئے درس ِ قرآن ، درس حدیث  دینے کے ساتھ،  شرعی مسائل کی راہ نمائی بھی کرتے ہیں تو ایسی صورت میں  بعض افراد کا  مسجد میں  کسی خاص شخص سے بیان کروانے کے لیے اصرار کرنا درست نہیں ہے، اس کا انہیں حق نہیں ہے، مسجد کے انتظامی معاملات میں اہل محلہ کو انتظامیہ کے  ساتھ تعاون کرنا چاہیے؛ تاکہ  کسی قسم کا انتشار پیدا نہ ہو، اگر   اہل محلہ ، دینی فائدے کی غرض سے کسی  عالمِ دین  کے بیان  کو مفید سمجھتے ہیں تو اپنی درخواست انتظامیہ کے سامنے رکھ دیں گے، اس کے بعد وہ مناسب سمجھیں تو اس کی ترتیب بنالیں، لیکن اگر انتظامی پہلو سے وہ اس کو مناسب نہ سمجھیں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے۔

سنن الترمذي میں ہے:

"حدثنا هناد قال: حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إسماعيل بن رجاء، عن أوس بن ضمعج، عن أبي مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لايؤم الرجل في سلطانه و لايجلس على تكرمته في بيته إلا بإذنه»، «هذا حديث حسن»."

(1/ 458،ابواب الصلاة، باب من أحق بالامامة، رقم الحديث: 235، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(«ولايؤمن الرجل الرجل في سلطانه») أي: في مظهر سلطنته ومحل ولايته، أو فيما يملكه، أو في محل يكون في حكمه، ويعضد هذا التأويل الرواية الأخرى في أهله، ورواية أبي داود في بيته ولا سلطانه، ولذا كان ابن عمر يصلي خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم على غير السلطان، وتحريره أن الجماعة شرعت لاجتماع المؤمنين على الطاعة وتآلفهم وتوادهم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانه أفضى ذلك إلى توهين أمر السلطنة، وخلع ربقة الطاعة، وكذلك إذا أمه في قومه وأهله أدى ذلك إلى التباغض والتقاطع، وظهور الخلاف الذي شرع لدفعه الاجتماع، فلا يتقدم رجل على ذي السلطنة، لا سيما في الأعياد والجمعات، ولا على إمام الحي ورب البيت إلا بالإذن. قاله الطيبي."

(3/ 863، كتاب الصلاة، باب الإمامة، الفصل الأول،  ط: دار الفكر)

شرح النووي علي مسلم میں ہے:

"قوله صلى الله عليه وسلم: ولايؤمن الرجل الرجل في سلطانه معناه ما ذكره أصحابنا وغيرهم أن صاحب البيت والمجلس وإمام المسجد أحق من غيره وإن كان ذلك الغير أفقه وأقرأ وأورع وأفضل منه وصاحب المكان أحق فإن شاء تقدم وإن شاء قدم من يريده وإن كان ذلك الذي يقدمه مفضولا بالنسبة إلى باقي الحاضرين لأنه سلطانه فيتصرف فيه كيف شاء."

(5/ 173، كتاب المساجد ومواضع الصلاة ، باب من أحق بالإمامة،  ط:  دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقًا (إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه) لعموم ولايتهما.

(ولو أم قومًا وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريما لحديث أبي داود «لايقبل الله صلاة من تقدم قومًا وهم له كارهون» (وإن هو أحق لا) والكراهة عليهم.

(قوله: مطلقًا) أي وإن كان غيره من الحاضرين من هو أعلم وأقرأ منه. وفي التتارخانية: جماعة أضياف في دار نريد أن يتقدم أحدهم ينبغي أن يتقدم المالك، فإن قدم واحدا منهم لعلمه وكبره فهو أفضل، وإذا تقدم أحدهم جاز لأن الظاهر أن المالك يأذن لضيفه إكراما له. اهـ. (قوله: وصرح الحدادي إلخ) أفاد أن هذا غير خاص بالسلطان العام الولاية، ولا بالقاضي الخاص الولاية بالأحكام الشرعية، بل مثلها الوالي، وأن الإمام الراتب كصاحب البيت في ذلك. قال في الإمداد: وأما إذا اجتمعوا فالسلطان مقدم، ثم الأمير، ثم القاضي، ثم صاحب المنزل ولو مستأجرا، وكذا يقدم القاضي على إمام المسجد."

(1/ 559، كتاب الصلاة، باب الإمامة،ط: دار الفكر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”سوال: محلّہ کے امام صاحب موجود نہیں  لیکن وہ اپنا نائب کسی مقتدی کو بنا گئے، اس نائب کے ہوتے ہوئے کسی دوسری کو امامت کرانی کیسی ہے؟

جواب : نائب امام کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے شخص کو  خود امامت کے لیے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔“

(6/ 348، باب الـامامۃ، ط: فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں