بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کامحراب كوچھوڑکر پیچھے صفوں میں کھڑا ہونے کا حکم


سوال

 امام کے ساتھ صف بناکر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟  کسی مکروہ فعل کے بار بار کر نےکا  کیا حکم ہے ؟ واضح رہے کہ ایک مسجد میں صرف چار صف کی گنجائش ہے، جمعہ کے دن مصلی زیادہ ہو نےکے باعث امام صاحب ان کے ساتھ ایک بالشت کے فاصلے پر ایک صف بنا کر نماز ادا کرتے رہے، کچھ دن بعد مسجد کی توسیع اوپر کی منزل ( 1st floor ) میں  ہوئی  اور نماز  بدستور پہلے کی طرح یعنی امام کے ساتھ ایک صف مل کر قائم ہوتی رہی، اب پھر دوسری منزل ( 2nd floor) بھی تیار ہو چکی ہے اور جگہ خالی پڑی رہتی ہیں ،لیکن اس کے باوجود نیچے امام صاحب اپنے ساتھ ایک صف بنا کر نماز قائم کر تے ہیں اور لوگ نہ کھڑے ہونے پر اعلان کر تے ہیں کہ پہلی صف پر کریں ، لہذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ (١) جگہ ہوتے ہوۓ امام کے ساتھ صف قائم کرنا کیسا ہے (٢) پہلی صف سے مراد امام کے پیچھے والی صف یا امام کے متصل صف کو کہا جاتا ہے؟ تحریر فرما کر ممنون و مشکور ہوں۔ 

جواب

(1):    صورتِ مسئولہ  میں جب صفوں میں گنجائش ہے تو  بلا عذر محض ایک صف اضافی بنانے کی غرض سے امام کے ساتھ بالکل متصل ایک بالشت کے فاصلے پرصف بنانادرست نہیں۔

البحر الرائق میں ہے:

"وذكر الإسبيجابي أنه لو كان معه رجلان فإمامهم بالخيار إن شاء تقدم، وإن شاء أقام فيما بينهما، ولو كانوا جماعةً فينبغي للإمام أن يتقدم، ولو لم يتقدم إلا أنه أقام على ميمنة الصف أو على ميسرته أو قام في وسط الصف فإنه يجوز ويكره".

 (كتاب الصلاة، باب الامامۃ،وقوف المامومين فی الصلاة خلف الامام ،1/ 374 ،دار الكتاب الاسلامي  ) 

فتاوی شامی میں ہے:

"في معراج الدراية من باب الإمامة: الأصح ما روي عن أبي حنيفة أنه قال: أكره للإمام أن يقوم بين الساريتين أو زاوية أو ناحية المسجد أو إلى سارية لأنه بخلاف عمل الأمة. اهـ. وفيه أيضا: السنة أن يقوم الإمام إزاء وسط الصف، ألا ترى أن المحاريب ما نصبت إلا وسط المساجد وهي قد عينت لمقام الإمام. اهـ. وفي التتارخانية: ويكره أن يقوم في غير المحراب إلا لضرورة اهـ ومقتضاه أن الإمام لو ترك المحراب وقام في غيره يكره ولو كان قيامه وسط الصف لأنه خلاف عمل الأمة، وهو ظاهر في الإمام الراتب دون غيره والمنفرد، فاغتنم هذه الفائدة فإنه وقع السؤال عنها ولم يوجد نص فيها."

(کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ ،646/1،سعيد)

(2):پہلی صف سے مرادوہ  صف ہے جو امام کے پیچھے  ہو ،لہذا جس جگہ مؤذن اقامت کے لیےامام کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے اس کے ساتھ نمازیوں کی جو صف ہے وہ صف اول ہی شمار ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويؤخذ من تعريف ‌الصف ‌الأول بما هو خلف الإمام أي لا خلف مقتد آخر".

(کتاب الصلوٰۃ،باب الامامۃ،مطلب فی الکلام علی الصف الاول،570/1سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100481

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں