بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امامِ مسجد کا بچوں سے فیس لے کر پڑھانا


سوال

میں ایک مدرسے کا مہتمم ہوں اور مدرسہ مسجد میں کھولا گیا ہے اور میں مسجد کے امام ہونے کی حیثیت سے نگران بھی ہوں اور معلم القرآن بھی ہوں، اسی  مسجد کے مدرسے میں فیسوں کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے، اور کوئی فنڈ چندہ نہیں کیا جاتا ،کیا اس فیس کے پیسوں سے جو کہ سرپرست محض تنخواہوں کی مد میں جمع کرتے ہیں ،ان میں سے میرا اپنی تنخواہ مقرر کرنا جائز ہے ؟اور باقی استادوں کو بھی تنخواہیں میں ہی دیتا ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مسجد  میں مستقل بنیاد پر مدرسہ یا مکتب قائم کرنا اور پھر  اجرت لے کر مسجد میں تعلیم دینا شرعاً  جائز نہیں،  مدرسہ یا مکتب مسجد کی حدود سے باہر قائم ہو اور جگہ کی تنگی کے باعث مسجد میں  تعلیم دی جائے اور مسجد  کے آداب کی مکمل رعایت رکھی جائے تو اس کی گنجائش ہے،لہذا جس طرح دیگر مدرسین کے لیے مشاہرہ مقرر کیا گیا ہے،اس طرح سائل اگر اس میں تدریس کے فرائض انجام دے رہا ہے،تو سائل کا اپنے لیے معقول مشاہرہ مقرر کروانا بھی جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: ومن علم الأطفال إلخ ) الذي في القنية أنه يأثم ولا يلزم منه الفسق ولم ينقل عن أحد القول به ويمكن أنه بناء على بالإصرار عليه يفسق  أفاده الشارح قلت بل في التاترخانية عن العيون جلس معلم أو وراق في المسجد فإن كان يعلم أو يكتب بأجر يكره إلا لضرورة  وفي الخلاصة تعليم الصبيان في المسجد لا بأس به اهـ  لكن استدل في القنية بقوله عليه الصلاة والسلام جنبوا مسجدكم صبيانكم ومجانينكم."

(‌‌‌‌كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، فرع یکرہ اعطاء سائل المسجد، ج:6، ص:428 ،ط: سعید)

فتاوی بزازیہ میں ہے:

"معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به،وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا."

(کتاب الکراہیة، علی هامش الهندیة، ج:4، ص:82، ط: رشیدیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌ولو ‌جلس ‌المعلم ‌في ‌المسجد والوراق يكتب، فإن كان المعلم يعلم للحسبة والوراق يكتب لنفسه فلا بأس به؛ لأنه قربة، وإن كان بالأجرة يكره إلا أن يقع لهما الضرورة، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد، ج:5، ص:321، ط: رشیدیة)

و فیہ ایضاً:

"‌البقعة ‌الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لا يجوز كذا في الغياثية."

(كتاب الوقف،الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز، ج:2، ص:362، ط: رشیدیة)

فتاوی قاضی خان میں ہے :

"ويكره أن يخيط في المسجد لأنه أعد للعبادة دون الإكتساب وكذا الوراق والفقيه إذا كتب بأجرة أو معلم إذا علم الصبيان بأجرة. وإن فعلوا بغير أجر فلا بأس به."

(کتاب الطہارۃ، فصل فی المسجد ،ج:1، ص:43، ط:زکریا جدید)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:ہمارے یہاں ایک مسجد  میں میرے ماموں امام ہیں،امامت کی انہیں مسجد کی جانب سے تنخواہ ملتی ہے،اس کے علاوہ کچھ لڑکوں اور لڑکیوں کو ماہانہ تنخواہ لے کر مسجد میں جہاں عبادت ہوتی ہے عربی تعلیم دیتے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ۔

جواب:مسجد میں مستقلاً تنخواہ لے کر تعلیم دینا مکروہ ہے، خاص کر ایسی حالت میں جب کہ مسجد کے قریب کمرہ بھی ہے جس میں تعلیم دی جاسکتی ہے۔ چھوٹے بچے جو پاکی ناپاکی کی تمیز نہیں رکھتے بلکہ ان سے اندیشہ ہو کہ مسجد کو ناپاک کردیں گے، ایسے بچوں کو مسجد میں لانا ہی منع ہے۔ صحنِ مسجد جہاں نماز و جماعت ہوتی ہے وہ بھی مسجد ہی ہے، اگر فرشِ مسجد کے علاوہ کوئی خالی جگہ ہو جہاں نماز و جماعت نہیں ہوتی، وہاں بھی تعلیم دینا درست ہے۔"

 

(باب احکام المساجد، ج:14، ص:605، ط:ادارۃ الفاروق)

احسن الفتاوی میں ہے:

"سوال:جو مدرسین تنخواہ پر قرآن مجید یا عربی کتابوں کا درس دیتے ہیں کیا ان کو کسی مسجد کے اندر درس دینا درست ہے؟

جواب:تنخواہ دار مدرس کا مسجد میں پڑھانا جائز نہیں۔

اگر مسجد سے باہر کوئی جگہ نہ ہو تو مسجد میں پڑھانا بشرائط ذیل جائز ہے:

1:مدرس تنخواہ کی ہوس کی بجائے گزر اوقات کے لیے بقدر ضرورت وظیفہ پراکتفاء کرے۔

2:نماز اور ذکر و تلاوت قرآن وغیرہ عبادت میں مخل نہ ہو۔

3:مسجد کی طہارت و نظافت اور ادب و احترام کا پورا خیال رکھا جائے۔

4:کمسن اور نا سمجھ بچوں کو مسجد میں نہ لایا جائے۔

(باب المساجد، ج:6، ص:458،459، ط: ایچ ایم سعید)

خیر الفتاوی میں ہے:

"سوال:مسجدمیں تنخواہ دار مولوی یا قاری بچوں کو تعلیم قرآن دے سکتے ہیں؟ جبکہ چھوٹے بچوں کی وجہ سے صفوں اور دریوں کے ناپاک ہونے کا خطرہ ہوتا ہے بچے مسجد میں بغیر پاؤں دھوئے آجاتے ہیں کودتے ہیں وغیر ذالک۔

جواب:بہتر یہ ہے کہ خارجِ مسجد بچوں کی تعلیم کا انتظام کیا جائے بلا اجرت قرآن مجید پڑھانے والا مدرس مسجد میں تعلیم دے سکتا ہے البتہ معاوضہ و تنخواہ لینے والا متبادل انتظام نہ ہونے کی صورت میں مسجد میں تعلیم دے سکتا ہےاگرآلودگی کا خطرہ ہو تو تعلیم کے لیے الگ چٹائیاں مہیا کی جائیں۔"

(احکام المساجد، ج:6، ص:516، ط:امدادیہ ملتان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں