بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا لمبی نماز پڑھنا اور حدیث کی کتابوں کو بغیر وضو کے چھونا


سوال

1۔ اگر کوئی امام اپنی نماز کو مختصر پڑھتا ہو ، لیکن جب امامت کرتا ہو تو لمبی نماز پڑھاتا ہو کیا یہ ریاکاری میں شامل ہوگا؟

2۔ حدیث کی کتابوں کو بغیر وضو کے پڑھنے اور چھونے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔ ریاکاری کا تعلق دل سے ہے،اور کسی کے دل  کا حال ہمیں معلوم نہیں،بظاہر اس میں کوئی ریا کاری نہیں ہے، البتہ امام کو  نماز  میں مسنون قراءت معتدل انداز  میں پڑھانی چاہیے۔ اور قراءت کی سنت مقدار یہ ہے کہ فجر اور ظہر میں طوال مفصل (سورہ حجرات سے سورہ بروج تک) اور عصر اور عشاء کی نماز میں اوساطِ مفصل (سورہ طارق سے سورہ بینہ تک) اور مغرب میں قصارِ مفصل (سورہ زلزال سے سورہ ناس تک) کی تلاوت کی جائے یا ان کے مساوی مقدار تلاوت کی جائے۔

سائل نے تلاوت کی مقدار ذکر نہیں کی، اس لیے مذکورہ امام کی قراءت کے طویل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں واضح بات نہیں کہی جاسکتی۔ 

2۔ حدیث کی کتاب کوبغیر وضو کے پڑھنا اور چھونا جائز ہے،لیکن آداب کے خلاف ہے،لہذا باوضو ہوکر پڑھنااور چھونا چاہیے۔ 

نضرۃ النعیم فی مکارم اخلاق الرسول الکریم میں ہے:

"قال الجرجانيّ: الرّياء: ترك الإخلاص في العمل بمراعاة غير الله فيه . وقال التّهانويّ: حدّ الرّياء: فعل الخير لإراءة الغير، وقيل: هو فعل لا تدخل فيه النّيّة الخالصة، ولا يحيط به الإخلاص."

(حرف الراء، الرياء، الفرق بين الرياء والسمعة والنفاق، ج:10 ص:4552 ط: دار الوسیلة) 

فتاوی شامی میں ہے:

"( قوله: لا الکتب الشرعیة) قال في الخلاصة: ویکره مس المصحف کما یکره للجنب، وکذلك کتب الأحادیث والفقه عندهما،  والأصح أنه لایکره عنده  هـ.  قال في شرح المنیة: وجه قوله: إنه لایسمی ماساً للقرآن؛ لأن ما فیها منه بمنزلة التابع ا هـ.  ومشى في الفتح على الكراهة، فقال: قالوا: يكره مس كتب التفسير والفقه والسنن؛ لأنها لاتخلو عن آيات القرآن، وهذا التعليل يمنع من شروح النحو ا هـ.  (قوله:لكن في الأشباه الخ ) استدراك على قوله: التفسير كمصحف، فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعاً وقد صرح بجوازه أيضاً في شرح درر البحار."

(كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:1 ص:176 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101947

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں