ہمارے محلے کے ایک امام مسجد ہمیں جمعہ پڑھا کر اپنے پیر صاحب کی اقتدا میں دوبارہ جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں۔ کیا اس عمل کی شریعت میں گنجائش ہے؟
فجر، عصر اور مغرب کی فرض نماز کے علاوہ دیگر فرض نمازیں (یعنی ظہر، جمعہ یا عشاء) تنہا یا باجماعت پڑھنے یا پڑھانے کے بعد اگر کسی اور جگہ دوبارہ وہی نماز ہورہی ہو تو اس جماعت میں نفل کی نیت سے شرکت کرنا جائز ہے، اور یہ دوسری نماز نفل ہوجائے گی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ امام صاحب ایک مرتبہ جمعہ پڑھانے کے بعد اپنے کسی بزرگ کی اقتدا میں دوبارہ نماز پڑھتے ہیں تو ان کی پہلی نماز جو انہوں نے پڑھائی وہ جمعہ کی نماز اور فرض نماز شمار ہوگی، اور اس کے بعد جو انہوں نے دوبارہ اقتدا کی ہے وہ ان کے لیے نفل نماز ہوگی، اور یہ جائز ہے اس لیے کہ فرض پڑھنے والے کے پیچھے نفل نماز مکروہ نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 53):
"(أتم) منفردًا (ثم اقتدى) بالإمام (متنفلًا، ويدرك) بذلك (فضيلة الجماعة) حاوي (إلا في العصر) فلايقتدي؛ لكراهة النفل بعده.
(قوله: ثم اقتدى متنفلًا) أي إن شاء، وهو أفضل إمداد.
وأورد أن التنفل بجماعة مكروه خارج رمضان. وأجيب بنعم إذا كان الإمام والقوم متطوعين، أما إذا أدى الإمام الفرض والقوم النفل فلا «لقوله عليه الصلاة والسلام للرجلين: إذا صليتما في رحالكما ثم أتيتما صلاة قوم فصليا معهم واجعلا صلاتكما معهم سبحةً» أي نافلةً، كذا في الكافي، بحر". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109203307
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن