بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا گانے باجے والی شادی میں کھانا کھانے والوں کو اپنے پیچھے نماز پڑھنے سے روکنا


سوال

ہمارے محلے میں امام صاحب کراچی کے ایک معروف ادارے  کے فاضل ہیں، کئی سالوں سے ہمارے امام اور خطیب ہیں، گزشتہ اتوار کے دن محلے کے ایک بھائی کے بیٹے کی شادی تھی،اس میں لڑکے کے ماموں نے ڈھول منگوائے اور باجے بجوائے،اس کا گھر کے بڑوں کو پتہ نہیں تھا، اس پر ہمارے امام صاحب نے مسجد میں یہ اعلان کیا کہ جو بھی اس شادی پر گیا یا وہاں سے کھانا کھایا وہ میرے پیچھے نماز نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوگی،اب مسجد میں بہت سے نمازی حضرات اس ولیمے کی دعوت پر گئے تھے،  ایسے میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ کیا اس امام کی اقتداء درست ہے ؟کیا شریعت امام کو اتنا اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی وجہ سے اپنی اقتداء سے لوگوں کو منع کرے؟

جواب

واضح رہے کہ آلات لہو و موسیقی کا استعمال اور سننا سنانادونوں بالاجماع حرام ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے طبل (ڈول)، کوبہ (ڈول کی ایک قسم )اور شراب و جوئے کو حرام قرار دیا ہے،  اسی طرح جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ گانا سننا دل میں نفاق جیسی مہلک بیماری پیداکرتا ہے مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایسے ناجائز امور کا ارتکاب کرے ۔ 

ایسی تقریبات جو فی نفسہ تو جائز ہوں، لیکن ان میں غیر شرعی امور (مثلاً مخلوط اجتماع، بے پردگی، موسیقی وغیرہ ) کا ارتکاب کیا جارہا ہو ان میں شرکت کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے یہ بات معلوم ہو کہ تقریب میں غیر شرعی امور کا ارتکاب ہوگا تو اس صورت میں ہرگز اس تقریب میں شرکت کے لیےنہیں جانا چاہیے، البتہ اگر مدعو شخص کوئی عالم و مقتدا ہو اور اسے امید ہو کہ وہ اس تقریب میں جاکر معصیت کے ارتکاب کو روک سکتا ہے تو اسے جانا چاہیے،تاکہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی گناہ سے بچ جائیں۔

 اور اگر پہلے سے معلوم نہ ہو کہ وہاں کسی معصیت کا ارتکاب ہورہا ہے، بلکہ وہاں جاکر معلوم ہو تو اگر اندر جانے سے پہلے معلوم ہوجائے تو واپس لوٹ آئے،اندر نہ جائے، البتہ اگر اندر جاکر اس معصیت کو بند کرنے پر قادر ہو تو اندر جاکر اس معصیت کو بند کروادے۔

اور اگر اندر داخل ہونے کے بعد معصیت کے ارتکاب کا علم ہو اور معصیت کو بند کرنے پر قدرت بھی نہ ہو تو مدعوشخص اگر عالم و مقتدا ہو تو وہ وہاں نہ بیٹھے، بلکہ اٹھ کر واپس چلا جائے، کیوں کہ اس کے وہاں بیٹھنے میں علم اور دین کا استخفاف (اہانت اور توہین) ہے، البتہ اگر مدعو شخص عام آدمی ہو تو وہاں بیٹھ کر کھانا کھانے کی گنجائش ہے۔ 

صورتِ مسئولہ میں جن لوگوں نے گانے باجے والی شادی میں کھانا کھایا ہے انہوں نے اچھا نہیں کیا، مگر  ان کے لیے مذکورہ امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست ہے اور ان کی نماز مذکورہ امام کے پیچھے صحیح ہوگی ۔

اور امام صاحب کو چاہیے کہ وہ حکمت و بصیرت کے ساتھ اہلِ محلہ کو مسئلے سے آگاہ  کریں، اپنی اقتدا میں نماز سے منع  نہ  کریں،امام کا اپنے پیچھے  نماز پڑھنے سے منع  کرنا مناسب نہیں، مگر امام صاحب کے منع کرنے کے باوجود بھی لوگوں  کا ان کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہوگا ،نماز ہو جائے گی۔

واضح رہے کہ یہ سوال کا اصولی جواب ہے،مذکورہ  امام نے  جن محرکات  اورعوامل کی وجہ سے  ایسا کیا، جس پس منظر میں کہا ہے،  اور جو الفاظ کہے ہیں، ان سب امور  کا  سمجھنا بھی اہم  ہے۔

السنن الکبری للبیھقی میں ہے:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله تبارك وتعالى حرم عليكم الخمر والميسر ‌والكوبة " وهو الطبل وقال: " كل مسكر حرام."

(باب ماجاء فی ذم الملاھی والمعارف والمزامیر ونحوھا،  ج:10، ص:374، ط:دار الکتب العلمیہ  بیروت لبنان)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن جابر - رضي الله تعالى عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الغناء) : بكسر الغين ممدودا أي: التغني (ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع ..... وقال النووي في الروضة: غناء الإنسان بمجرد صوته مكروه وسماعه مكروه، وإن كان سماعه من الأجنبية كان ‌أشد ‌كراهة."

(کتاب الآداب، باب البیان والشعر، ج:7، ص:3024، ط:دار الفکر بیروت)

فتاوی شامی میں  ہے:

"وأما شروط الإمامة فقد عدها في نور الإيضاح على حدة، فقال: وشروط الإمامة للرجال الأصحاء ستة أشياء: الإسلام والبلوغ والعقل والذكورة والقراءة والسلامة من الأعذار كالرعاف والفأفأة والتمتمة واللثغ وفقد شرط كطهارة وستر عورة."

(كتاب الصلوة، ‌‌باب الإمامة، ج:1، ص:550،  ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌من ‌دعي ‌إلى ‌وليمة ‌فوجد ‌ثمة ‌لعبا ‌أو ‌غناء فلا بأس أن يقعد ويأكل، فإن قدر على المنع يمنعهم، وإن لم يقدر يصبر وهذا إذا لم يكن مقتدى به أما إذا كان، ولم يقدر على منعهم، فإنه يخرج، ولا يقعد، ولو كان ذلك على المائدة لا ينبغي أن يقعد، وإن لم يكن مقتدى به وهذا كله بعد الحضور، وأما إذا علم قبل الحضور فلا يحضر؛ لأنه لا يلزمه حق الدعوة بخلاف ما إذا هجم عليه؛ لأنه قد لزمه، كذا في السراج الوهاج وإن علم المقتدى به بذلك قبل الدخول، وهو محترم يعلم أنه لو دخل يتركون ذلك فعليه أن يدخل وإلا لم يدخل، كذا في التمرتاشي".

(كتاب الكراهية، الباب الثاني عشر في الهدايا والضيافات،ج:5، ص:343، ط:دار الفكر بيرودار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں