اگر امام کسی وجہ سے فجرکے نماز کے وقت پر آئے، لیکن سنت پڑھے بغیر فرض نماز پڑھا دے، اور نمازکے بعد سنت پڑھے تو کیااس کا یہ عمل درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں امام صاحب کے کسی وجہ سے فجر کی سنت ادا کیے بغیر فجر کی فرض نماز پڑھالینے سے فجر کی نماز کراہت کے بغیر ادا ہوجائے گی، البتہ چوں کہ فجر کی دو سنتیں مؤکدہ امام اور مقتدی دونوں کے لیے سنتِ مؤکدہ ہیں، اور اس کی تاکید بھی زیادہ ہے، اس لیے امام کو چاہیے کہ وہ جماعت کے طے شدہ وقت سے پہلے ہی سنت ادا کرنے کا اہتمام کرلے، اور اگر کبھی جماعت کا وقت ہوجائے اور امام نے سنتیں نہ پڑھی ہوں تو مقتدیوں کو چاہیے کہ امام کو سنتوں کی ادائیگی کاموقع دے دیں، لیکن اگر امام سنتیں پڑھے بغیربھی فرض نماز پڑھالے تو نماز کسی قسم کی کراہت کے بغیر ادا ہوجائے گی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آں حضرت ﷺ اگر ظہر سے پہلے چار سنتیں نہیں پڑھ سکتے تھے تو بعد میں پڑھ لیا کرتے تھے (اور ظاہر ہے آں حضرتﷺ ہی امام ہوا کرتے تھے)۔
باقی سنتوں کی مستقل طور پر قضا نہیں ہے، البتہ فجر کی سنتوں کی تاکید کی وجہ سے یہ حکم ہے کہ جس دن فجر کی سنتیں تنہا یا فجر کی فرض نماز کے ساتھ رہ جائیں تو اشراق کا وقت ہوجانے کے بعد سے لے کر اسی دن زوال کے وقت تک فجر کی سنتیں ادا کی جاسکتی ہیں، لہذا امام صاحب یا کسی بھی مقتدی کو فجر کی نماز سے پہلے اگر سنت ادا کرنے کا موقع نہیں مل سکا ہو تو نماز کے بعد اشراق سے پہلے ان کے لیے سنت ادا کرنا درست نہیں ہے، البتہ اشراق کا وقت داخل ہونے کے بعد سے لے کر زوال تک فجر کی سنت ادا کی جاسکتی ہے۔
سنن الترمذي(2 / 291):
"عن عائشة، «أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا لم يصل أربعاً قبل الظهر صلاهن بعدها»".
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : کفایت المفتی 125/3،فتاوی رحیمیہ 129/4،خیرالفتاوی 331/2،احسن الفتاوی 286/3۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144206200695
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن