بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا التحیات میں وضو ٹوٹ جائے تو کیا کرے؟


سوال

اگر امام کا التحیات میں وضو جاتا رہے تو وہ کیا کرے ؟نیز بنا کرنے کا طریقہ  بھی بتا دیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر التحیات میں امام صاحب کا وضو ٹوٹ جائےتو  اگر وضو کرنے کے بعد امام کو  جماعت ملنا ممکن ہو تو از سر نو نماز پڑھنا افضل ہے اور اگر وضو کے بعد جماعت  نہ ملے تو بناء  کرنا  افضل ہے۔لیکن اس کے لیے شرط ہے کہ وضو ٹوٹتے ہی بغیر رکے ہوئے فورًا جائے اور وہاں وضو کے علاوہ رکے نہیں، اور بات چیت بھی نہ کرے، وضو کرکے فورًا آجائے۔ اگر کسی کو  یہ مسئلہ معلوم نہ ہو جیسا کہ عوام کا حال ہے تو   وہ  وضو ٹوٹ جانے کے بعد وضو کرکے  از سر نو ہی نمازپڑھانا  شروع کرے ،بنا نہ کرے یعنی کسی کو خلیفہ نہ بنائے بلکہ نماز قطع کردے ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"من سبقه حدث توضأ وبنى. كذا في الكنز  والرجل والمرأة في حق حكم البناء سواء. كذا في المحيط ولا يعتد بالتي أحدث فيها ولا بد من الإعادة هكذا في الهداية والكافي والاستئناف أفضل. كذا في المتون وهذا في حق الكل عند بعض المشايخ وقيل هذا في حق المنفرد قطعا وأما الإمام والمأموم إن كانا يجدان جماعة فالاستئناف أفضل أيضا وإن كانا لا يجدان فالبناء أفضل صيانة لفضيلة الجماعة وصحح هذا في الفتاوى كذا في الجوهرة النيرة."

(کتاب الصلوۃ , الباب السادس فی الحدث فی الصلوۃ جلد 1 ص: 93 ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(استخلف) أي جاز له ذلك ولو في جنازة بإشارة أو جر لمحراب، ولو لمسبوق، ويشير بأصبع لبقاء ركعة، وبأصبعين لركعتين ويضع يده على ركبته لترك ركوع، وعلى جبهته لسجود، وعلى فمه لقراءة، وعلى جبهته ولسانه لسجود تلاوة أو صدره لسهو (ما لم يجاوز الصفوف لو في الصحراء) ما لم يتقدم، فحده السترة أو موضع السجود على المعتمد كالمنفرد (وما لم يخرج من المسجد) أو الجبانة أو الدار (لو كان يصلي فيه)(قوله ويشير إلخ) هذا إذا لم يعلم الخليفة، أما إذا علم فلا حاجة إلى ذلك بحر."

(کتاب الصلوۃ , باب الاستخلاف جلد 1 ص: 601 , 602 ط: دارالفکر)

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

"(سوال)"ایک امام نماز پڑھا رہا ہے وضو ٹوٹ گیا تو کیا کرے؟

(جواب)از سر نو وضو کر کے نماز پڑھا وے کہ بناء کے مسائل سے لوگ واقف نہیں ہوتے اور استیناف اولی بھی ہے۔"

(کتاب الصلوۃ  ص: ۳۵۱ ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام )

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

(سوال )"نما ز میں امام کو اگر حدث ہوجائے تو فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ خلیفہ بنانا جائز ہے چوں کہ یہ مسئلہ نادر الوقوع ہے ۔ اگر اس سے ناواقف ہیں تو امام کو خلیفہ بنانا دشوار ہوتا ہے ایسی حالت میں کیا کرنا چاہیے۔

(الجواب) فقہ کی کتابوں میں حدث لاحق ہونے کی صورت میں خلیفہ بنانے کو جائز لکھا ہے ۔ ضروری نہیں ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ استیناف ہی کرنا مناسب ہے تاکہ لوگ غلطی میں پڑیں پس پہلے نماز کو قطع کردے اور عمل منافی کر لیوے پھر بعد وضو کے از سر نو شروع کردے۔"

(الباب السادس فی الحدث فی الصلوۃ جلد ۳ ص:۲۶۳ ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144409100590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں