بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کے ساتھ دو یا تین رکعتیں مل جائیں تو پوری نماز امام کے ساتھ پڑھنا کہلائے گی


سوال

جب کسی  شخص کی   امام کے ساتھ تکبیر اولیٰ چھوٹ جائے اور وہ امام کے ساتھ دوسری رکعت میں شامل ہونا چاہتا ہو ،تو وہ نیت کس طرح کرے گا؟  یعنی وہ جو نماز پڑھے گا وہ تو امام کے ساتھ دو یا تین رکعت ہوں گی، تو وہ زبان کے ساتھ اس طرح نیت کرے گا کہ میں نیت کرتا ہوں چار رکعت نماز ظہر کی اس امام کے پیچھے۔ حالانکہ یہ تو امام کے پیچھے دو رکعت یا تین رکعت پڑھے گا ،جو اس نے نیت کی ہے وہ جھوٹ شمار ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کسی کو امام کے ساتھ نماز کا کچھ حصہ بھی مل جائے تو وہ پوری نماز امام کے ساتھ ہی شمار ہوگی، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی مسبوق بندہ مذکورہ الفاظ(میں نیت کرتا ہوں چار رکعت نماز ظہر کی اس امام کے پیچھے) سےنیت کرتا ہے، تو اس سے جھوٹ کا ارتکاب لازم نہیں آتا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال) ومن ‌أدرك ‌الإمام ‌في التشهد ‌في الجمعة أو ‌في سجدتي السهو فاقتدى به فقد أدركها."

(شروط الجمعة، ج: 2، ص: 35، ط: دار المعرفة بيروت لبنان)

الجامع الکبیر میں ہے:

"ولو قال: عبده حر إن ‌أدرك الظهر مع ‌الإمام، فأدركه ‌في ‌التشهد ودخل معه حنث."

(‌‌باب اليمين في الهبة والصدقة والبيع والعارية والنكاح [والصلاة والحنث في ذلك]، ص: 57، ط: دار المعارف النعمانية، في لاهور باكستان ١٤٠١)

الاصل لامام محمد بن الحسن الشیبانی میں ہے:

"قلت أرأيت رجلا أدرك مع الإمام يوم الجمعة ركعة أو أدرك الإمام في التشهد قبل أن يسلم أو بعد ما تشهد قبل أن يسلم أو أدركه بعد ما سلم وهو في سجدتي السهو قال أدرك هذا معه الصلاة وعليه أن يصلي ركعتين."

(باب صلاة الجمعة، ج: 1، ص: 362، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية بكراتشي باكستان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں