پیش امام ہوتے ہوئے ایک غیر امام فوراً نمازِ فجر کے بعد وعظ ونصیحت شروع کرتا ہے اور خود اعتراف بھی کرتا ہے کہ میرے وعظ پر لوگ خوش نہیں ہیں، اس کے بارے میں کیا کرنا چاہیے؟
مذکورہ شخص کا اس طرح امام کی اجازت کے بغیر اپنی طرف سے وعظ و نصیحت کے لیے کھڑا ہوجانا درست نہیں ہے، خصوصاً جب کہ اہل مسجد بھی اس کے اس عمل سے خوش نہ ہوں، مسجد کمیٹی کو چاہیے کہ اس کو اس عمل سے روک دیں۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"قوله صلى الله عليه وسلم ولا يؤمن الرجل الرجل في سلطانه معناه ما ذكره أصحابنا وغيرهم أن صاحب البيت والمجلس وإمام المسجد أحق من غيره وإن كان ذلك الغير أفقه وأقرأ وأورع وأفضل منه وصاحب المكان أحق فإن شاء تقدم وإن شاء قدم من يريده وإن كان ذلك الذي يقدمه مفضولا بالنسبة إلى باقي الحاضرين لأنه سلطانه فيتصرف فيه كيف شاء."
(كتاب الصلاة، ج:5، ص:173، ط:دار إحياء التراث العربي)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607101192
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن