بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام وخادم کے گھرکادروازہ مسجد کی طرف کھولنا،اورمسجد کا جنریٹراستعمال کرنا


سوال

مسئلہ نمبر1:ہماری مسجدکے ساتھ ہی امام ، مؤذن اورخادم کی رہائش ہے جس کاایک، ایک دروازہ مسجد کی طرف بھی کھلتاہے، اوریہ تینوں افراداس حصہ کواپنی رہائش کے طورپراستعمال کرسکتے ہیں یانہیں ؟ اس لیے ہم چاہتےہیں کہ ان دروازوں پرتالے ڈال دیے جائیں ، تاکہ مسجدکااحترام باقی رہے، برائے مہربانی شریعت کی روسے ہم کواس کاجواب دےدیاجائے، اورہمارے اس عمل سے ان افرادکے ساتھ زیاتی تونہیں ہوگی؟

مسئلہ نمبر2:ہماری مسجد کاجنریٹرجوکہ نمازکے اوقات میں چلایاجاتاہے ، لائٹ جانے کی صورت میں ،تاکہ نمازیوں کوتکلیف نہ ہو، کیااس جنریٹرکااستعمال امام ، مؤذن اورخادم کرسکتےہیں یانہیں؟

جواب

1:واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسے مسجد کے وقف مکان کادروازہ مسجد کی طرف کھولناجائز ہے، بشرطیکہ اسےاپنے لیےعام گزرگاہ کےطورپراستعمال نہ کرے اورمسجد کااحترام بھی باقی رہے۔

لہذاصورت مسئولہ میں مسجدکے احترام کوملحوظ رکھتےہوئے امام ، مؤذن اورخادم کے گھروں کادروازہ مسجد کی طرف کھولنااورمسجد میں آنے جانے کےلیےاستعمال کرناجائزہے ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و لو كان ‌إلى ‌المسجد ‌مدخل من دار موقوفة لا بأس للإمام أن يدخل للصلاة من هذا الباب، كذا في القنية."

(الفتاوي الهندية ، كتاب الكراهية ، الباب الخامس في آداب المسجد 5/ 320ط: رشيدية)

2:واضح رهے كہ  امامِ مسجد ، مؤذن اورخادم چوں کہ متعلقاتِ مسجد ہی میں سے ہيں، اس لیےبوقت ضرورت امام ، مؤذن اورخادم كےليے مسجد كاجنریٹراستعمال کرناجائز ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

''السادسة: في بيان من يقدم مع العمارة وهو المسمى في زماننا بالشعائر ولم أره إلا في الحاوي القدسي، قال: والذي يبتدأ به من ارتفاع الوقف عمارته شرط الواقف أو لا، ثم ما هو أقرب إلى العمارة وأعم للمصلحة، كالإمام للمسجد والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدركفايتهم، ثمالسراجوالبساط كذلك إلى آخر المصالح .'

(البحر الرائق، كتاب الوقف ، الاستدانة لاجل العمارة في الوقف 5/ 230 ط:دارالكتاب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں