بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام مسجد کو تنخواہ کے بدلے فطرہ اور قربانی کی کھالیں دینے کاحکم


سوال

ہمارے گاؤں میں امام مسجد کو تنخواہ نہیں دی جاتی ، 40 سال سے گاؤں کا امام ہے ، لوگ فطرہ اور قربانی کی کھالیں امام کو دیتے ہیں ، تنخواہ کےبدلے یہ جائز ہے یا نہیں ؟

ہم ضلع پشین کلی کربلا سے تعلق رکھتے ہیں ، ہم سید بخاری ہیں ، ابھی ہمارے گاؤں میں جو لوگ زکوۃدیتےہیں وہ کہتے ہیں کہ سید پر زکوۃ نہیں ہوتاہے، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ اگر زکوۃ ہوتاہے تو کس طریقے سے ، اور اگر نہیں ہوتا تو کیا وجہ ہے ؟ 

سید پر زکوۃ نہیں ہوتا سے مراد یہ ہے کہ اس کو زکوۃ دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ 

جواب

 (1)  واضح رہےکہ شرعی اعتبار سے فطرہ کا  مستحق وہ افراد ہیں جو  نہ بنی ہاشم (سید  ،  عباسی وغیرہ) میں سے ہوں اور نہ ہی ان کے پاس  ساڑھے سات تولہ سونا، یاساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت کے برابر نقد رقم یا مال تجارت  یا اس مالیت کے برابر ضرورت و استعمال سے زائد سامان موجود ہو، اسی طرح  زکات کی ادائیگی  صرف مسلمان مستحقین کو کی جاسکتی ہے، غیر مسلم کو  زکاۃ دینا درست نہیں، نیز زکاۃ کی رقم تنخواہ کی مد میں یاکسی کام کی اجرت کے طور پر دینے سے زکاۃ ادا نہ ہوگی لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ امام کو فطرہ اور  قربانی کی کھالیں تنخواہ کے بدلے میں دینا جائز نہیں ، اورزکوۃ  دینے والوں کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی، تاہم  قربانی کرنے والوں کی قربانی ہوجائے گی ، اور جن لوگوں نے امام کو زکوٰۃ کی رقم تنخواہ کے طور پر دی ہے ان کو اپنی  زکوٰۃ دوبارہ ادا کرنی ہوگی۔

(2) صورتِ مسئولہ  میں سید کو زکوۃ دینا جائز نہیں ، سید کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادانہیں ہوگی ، اس لیے کہ حضور صلی الله عليہ وسلم نے سيد كو زكوة دينے سے منع فرمايا ہےاور اس ليے  بھی كہ  زکوۃ  لوگوں  کے  مالوں کا  میل ہےاور  سید آلِ رسول میں سے ہیں اور الله  تعالیٰ پسند نہيں كرتے كہ وه اپنے محبوب كے اولاد كو لوگوں كا ميل كھلائے، اسی ليے الله نے ان كے ليے زكوٰة نہ لينے كے بدلے مالِ غنيمت كا پانچوا ں حصہ ركھا ہے ، البتہشدید ضرورت ہو تو تملیک کی حقیقت اورشرائط ملحوظ رکھتے ہوئے تملیک کا حیلہ کرکے زکوۃ کی رقم سيد كو دينے کی گنجائش ہوگی ، ا س کا طریقہ یہ ہے کہ زکاۃ کی رقم کسی غریب کو مالک بنا کر دے دیں، اور اسے بتادیں کہ فلاں شخص كو  ضرورت ہے، اگر آپ مالک ہونے کے بعد ان کی مدد کریں گے تو ثواب ملے گا، اس کے بعد اگر وہ اپنی خوشی سے دے دیتا ہے تو اس رقم کا استعمال  سيد كے ليے جائز ہوگا۔دوسری بات یہ ہے کہ زکوٰۃ مال کا چالیسواں حصہ ہے ، باقی انتالیس حصے میں سے دےدیں تو زکوٰۃ کو تملیک کرکے دینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

السنن الكبری میں ہے : 

"عن أبى هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله  صلى الله عليه وسلم : من ‌باع‌جلد أضحيته فلا أضحية له."

(كتاب الضحايا ، باب: لا يبيع من أضحيّته شيئا، ولا يعطى أجر الجازر منها، ج : 19 ص : 363 ط دارالرسالة العربية والاسلامية)

فتاوی عالمگیر یہ میں ہے : 

"ولا يحل بيع شحمها وأطرافها ورأسها وصوفها ووبرها وشعرها ولبنها الذي يحلبه منها بعد ذبحها بشيء، لا يمكن الانتفاع به إلا باستهلاك عينه من الدراهم والدنانير والمأكولات والمشروبات، ولا أن يعطي أجر الجزار والذابح منها، فإن باع شيئا من ذلك بما ذكرنا نفذ عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى، وعند أبي يوسف رحمه الله تعالى لا ينفذ ويتصدق بثمنه."

(کتاب الاضحیة الباب السادس في بيان ما يستحب في الأضحية والانتفاع بها ، ج : 5 ص : 301 ط : رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے :

"ولا يحل بيع جلدها وشحمها ولحمها وأطرافها ورأسها وصوفها وشعرها ووبرها ولبنها الذي يحلبه منها بعد ذبحها بشيء لا يمكن الانتفاع به إلا باستهلاك عينه من الدراهم والدنانير والمأكولات والمشروبات، ولا أن يعطي أجر الجزار والذابح منها؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال «من باع ‌جلد أضحيته فلا أضحية له» وروي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لعلي رضي الله عنه : " تصدق بجلالها وخطامها، ولا تعطي أجرا لجزار منها " وروي عن سيدنا علي - كرم الله وجهه - أنه قال: إذا ضحيتم فلا تبيعوا لحوم ضحاياكم ولا جلودها وكلوا منها وتمتعوا ولأنها من ضيافة الله - عز شأنه - التي أضاف بها عباده وليس للضيف أن يبيع من طعام الضيافة شيئا فإن باع شيئا من ذلك نفذ عند أبي حنيفة ومحمد.

وعند أبي يوسف لا ينفذ لما ذكرنا فيما قبل الذبح ويتصدق بثمنه؛ لأن القربة ذهبت عنه فيتصدق به ولأنه استفاده بسبب محظور وهو البيع فلا يخلو عن خبث فكان سبيله التصدق وله أن ينتفع بجلد أضحيته في بيته بأن يجعله سقاء أو فروا أو غير ذلك."

(كتاب التضحية ، فصل في بيان ما يستحب قبل التضحية وبعدها وما يكره ، ج : 5 ص : 81 ط : دارالكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے :

"(و منها) أن لايكون من بني هاشم لما روي عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال: يا معشر بني هاشم إن الله كره لكم غسالة الناس وعوضكم منها بخمس الخمس من الغنيمة.

و روي عنه صلى الله عليه وسلم أنه قال: إن الصدقة محرمة على بني هاشم وروي أنه رأى في الطريق تمرة فقال: لولا أني أخاف أن تكون من الصدقة لأكلتها ثم قال: إن الله حرم عليكم يا بني هاشم غسالة أيدي الناس و المعنى ما أشار إليه أنها من غسالة الناس فيتمكن فيها الخبث فصان الله تعالى بني هاشم عن ذلك تشريفا لهم وإكراما وتعظيما لرسول الله - صلى الله عليه وسلم."

(كتاب الزكوة ، فصل الذي يرجع الي المؤدي اليه ، ج : 2 ص : 49 ط : سعيد) 

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144309100650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں